Main Menu

منظور گیلانی جیسے لوگ، تحرير : افتخار راجپوت ڈوگرہ

Spread the love


مہاراجہ گلاب سنگھ کی دھرتی ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبت ہا کے شمالاً جنوباً مشرق مغرب میں ایسے کرداروں کی کوئی کمی نہیں جن کا اڑونا بچھونا یہ دھرتی تھی یہی ان کی حب کا محور تھی اور یہی ان کی محبت کا آج بھی نقطہ آغاز و اختتام ہے بہت سارے مجنون اس لیلی پر قربان ہوئے کہیں آج بھی کفن ہاتھ میں لیے تیار ہیں لیکن بدقسمتی سے اس ارض مقدس و منقسم و مقبوضہ پر ایسے بھی کردار آئے جن کا نام ہی مانند گھن ہے جن کا کردار دیکھ کر انسان قہہ کرنے پر مجبور ہو جائے ایسے مکروہ ترین کرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو اس ریاست کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں جن کا نہ کوئی دین ہے نہ ایمان ہے ان کا مقصد کل بھی مفاد تھا آج بھی مفاد ہے اور یہ عناصر شاید اپنے مفاد کے لئے اپنی گھر کی عزتوں کو بھی داو پر لگا دینے سے گریز نہیں کرتے.

عزت و ضمیر کے سوداگراں کی اس طویل فہرست کے اگر اوراق پلٹے جائیں ان میں ایک نام منظور حسین گیلانی کا نکلتا ہے عالیجاہ نام سے تو سادات گھرانے سے لگتے ہیں لیکن مجال ہے کے ان پر اس مقدس و محترم فاطمی خون کا کوئی اثر ہو یا ان قول و فعل میں امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی یا سیدنا امام حسن ابن علی کے کردار و فکر کی کوئی ایک فیصد بھی چھاپ ہو. نہ ان میں سیدنا امام حسن کی بندگی و کردار کی برتری کی کوئی رمق نہ ہی ان میں دین حق کی خاطر گردن دے کر یوم حشر تک مثال بننے والے سیدنا امام حسین کے اعلی کردار کی کوئی ادا.

شاید ہی کوئی شخص اتنا محسن شکن ہو گا جتنا اس ارض مقدس نے منظور حسین گیلانی کے روپ میں دیکھا جس کے اجداد کو نام کے سید لکھنے کے باعث اس دھرتی کے شاہی درباروں میں کرسی ملتی رہی ان کی تکریم ہوتی رہی ان کو وظائف ملتے ہیں ان کو مسلم قوانین کے لیے مشاورت میں شامل کیا جاتا رہا ان کہ وجود کو ریاست کی عزت قرار دیا جاتا رہا. لیکن ان کی مثال اس موالی کی ہے جو جس درخت کے سائے میں بیٹھا جس کا پھل کھاتا رہا وقت مفاد آیا تو اسی کو کاٹنے میں جت گیا.

بلاشبہ ان کا شمار ان جاہ طلب لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنا مفاد دیکھ کر حرمت بیچ دیں. موصوف کرناہ کے علاقے سے ہجرت کر کے عذاب جموں و کشمیر کی بلدیہ میں تشریف لائے جو اسی فیصد جموں کے رقبے پر مشتمل ہے اسی خطے کمائی کی یہاں پر ہی انتہائی شرمناک و مکروہ حرکات کے ذریعے منصف بنے اسی خطے سے تنخواہ کی صورت مال کمایا اسی سے آج بھی لاکھوں روپے ماہوار پینشن کی صورت بٹور رہے ہیں لیکن پہاڑی بولنے والے علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود موصوف اس خطے اور اس کے باشندوں کو ہمیشہ چونا لگاتے رہے ان کو کمتر سمجھتے رہے تعصب کرتے رہے. ان کی جموں لداخ و گلگت کے ساتھ اس کے باشندوں کے ساتھ نفرت و حقارت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں آئے روز اپنے گٹر زدہ الفاظ سے نہ صرف یہ اس خطے کا ماحول مکدر کرنے میں مصروف رہتے ہیں بلکہ ان کو یہ اعجاز بھی حاصل ہے کے یہ اس خطے کے حفیظ پیرزادہ ہیں جو طویل عرصے سے اسلام آباد سرکار کو یہ باور کروانے میں لگے ہوئے ہیں کے اس خطے کو ہضم کر کے صوبہ بنا دیا جائے تاکہ ان کی لاٹری نکلے اور یہ کسی عہدے پر براجمان ہوں اس سے پہلے صدر کی کرسی تو ہاتھ نہ لگی.

ذرا موصوف تازہ ترین اقوال کی جھلک جس میں موصوف فرماتے ہیں کے:

مجھے نہیں لگتا کے ریاست 1846ء کی صورت میں بحال ہو البتہ کشمیر وادی یونٹ کی صورت میں بحال ہو سکتی ہے چونکہ کشمیر تو وہی ہے باقی تو سب سابقے اور لاحقے ہیں.

سوال یہ ہے کے اگر جموں، لداخ، گلگت اور بلدیہ عذاب جموں و کشمیر کے علاقہ جات سب سابقے و لاحقے ہیں یہاں کے لوگ سب سابقے و لاحقے ہیں تو بڑوا گیری کے ذریعے جج بننے والے مال خور بکاو ضمیر کے سوداگر منظور حسین گیلانی جناب یہاں اپنے کس کا رشتہ دینے براجمان ہیں کس لیے ہمارے وسائل میں پینشن لے رہے ہیں؟

اگر 90 فیصد ریاست و اس کے باشندے سابقے و لاحقے ہیں ان کی مرضی و منشا ان کا مستقبل سب سابقے لاحقے ہے تو یہ سوال بھی بنتا ہے کے تمھارے بیٹے خالد گیلانی نے کینیڈا میں یو کے پی این پی کے لیڑز پر اسی پاکستان کے خلاف سیاسی پناہ کیوں لی جس کے جناب اس دھرتی میں وکیل و بڑوے ہیں آپ کے بیٹے کو عذاب جموں و کشمیر میں کس سے خطرہ تھا جب آپ عدلیہ میں جج تھے اور پاکستان کے بہی خواہ تھے؟ نیز اگر کس کو پیش کر کے لیٹرز لیے؟ سوال یہ بھی ہے نام کے ساتھ سید لکھ کر پھر تمھارا دین مفاد کیوں؟ ضمیر فروشی کیوں؟ فیصلہ آپ کا۔۔۔






Related News

.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے

Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More

پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت

Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *