Main Menu

تيرہ جولائ واقعہ، اپنے دماغ سے سوچیے؛ تحریر: اسد نواز

Spread the love


(یہ تحریر خاص طور پر ترقی پسندی اور قومی آزادی کے دعویداروں کیلیے ہے )

تصور کیجیے کہ کسی جگہ پر لوگوں کا ہجوم جمع ہو، لوگ احتجاج کر رہے ہوں اچانک مجمعے میں سے کوئی آدمی کھڑا ہو کر جذباتی تقریر کرنا شروع کر دے، ہجوم مشتعل ہو جاۓ ،کسی سرکاری عمارت مثلاً جیل پر چڑھ دوڑے دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرے، موقع پر موجود قانون نافذ کرنے والے ریبستی ادارے کے اہلکار ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں لیکن ہجوم ناکام رہے ، دن کے دس بجے کا وقت ہو ایسے میں کوئی آدمی اچانک اس گھمسان میں اذان دینا شروع کر دے، ایک آدمی اللہ اکبر کہے اسکو نشانہ لگا کر گولی ماری جاۓ، وہ گرے تو دوسرا کھڑا ہو جاۓ ،اسکے بعد تیسرا اس سے آگے اذان شروع کر دے، اذان کے پندرہ جملےاور بائیس آدمی مکمل کریں، ۔۔۔لوگ اتنے ڈسپلن کے ساتھ گرتے،مرتے اور اذان مکمل کرتے ہیں ، کسی قسم کے خلل کے بغیر بائیس لوگوں کی شہادت کے بعد اذان مکمل ہو جاۓ، ۔۔۔یار خدا کا خوف کریں صرف اپنے ذہن کو بالکل خالی کر کے سوچیں کیا یہ ساری کہانی ایسی ہی ہو سکتی ہے جیسی بتائی جاتی ہے؟؟ کیا کسی فلم کی اداکاری میں بھی ایسا کردار پلے کیا جا سکتا ہے؟؟ بالکل نہیں کسی بھی فلم میں ایسی اداکاری نہیں کی جاتی ہے، جلیانوالہ باغ میں احتجاج کے دوران جب انگریز جنرل ڈائر ایک ہجوم پر فائر کھلواتا ہے تو وہاں کس قدر بگدڑ مچ جاتی ہے یہ بھی ایک فلم کا سین ہے،

ایسی ہی کہانیوں کے ذریعے آج تک اس ہجوم کو بیوقوف بنا کر اس پر حکمرانی کی گئی، مذہب کو بطور ہتھیار استمعال کرتے ہوۓ لوگوں کے جذبات سے کھیلا گیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ تیرہ جولائی کو یہ واقع پیش آیا لیکن جو کچھ پاکستانی تاریخ میں بتایا جاتا ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، حقیقت یہ ہے کہ یہ انگریز سامراج کی سازش سے ریاست جموں کشمیر کے اندر مذہبی منافرت اور مستقبل کی تقسیم کا پہلا کامیاب تجربہ تھا، اسکے کام کیلیے عبدالقدیر نامی ایک غیر ریاستی پٹھان کو استمعال کیا جاتا ہے جو ایک انگریز افسر کا خانسامہ تھا، جس تحریک کی بنیاد ہی مذہبی ،فرقہ وارانہ اور غیر ریاستی ہو وہ آگے کس طرح قومی یا ترقی پسند بن سکتی ہے ،
(اگر اس کے اندر قومی آزادی یا ترقی پسندی کا تڑکا لگانے کی کوشش کی بھی جاۓ تو وہ ایسی ہی ہو گی جیسی آج کی قوم پرستی اور ترقی پسندی ہے ،)
اس تحریک کا ہی پہلا حتمی نتیحہ سنتالیس کا غدر اور اسکے نتیجے میں ہونے والی ریاست جموں کشمیر کی تقسیم ہے،
عام آدمی کی تو بات الگ ہے اسکو جو کچھ بتایا گیا وہ اسی کو سچ مانتا ہے لیکن جو ترقی پسند ی اور قومی آذادی کے دعوے دار ہیں ان پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ بھی عملی طور پر دو قومی نظریے والے بیانیے کے ساتھ ہی کھڑے ہیں ، سوشل میڈیا پر یہ قوم پرست، ترقی پسند اور پاکستان کا سرکاری میڈیا بالخصوص پی ٹی وی سب ایک پیج پر ہیں
میرا کسی پر کوئی اعتراض نہیں کہ کون کیا کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے، لیکن میرا ان قوم پرستوں اور ترقی پسندوں سے ایک سوال ہے کہ اگر انیس سو اکتیس کی خالصتاً مذہبی تحریک،جسکا خالق اور روح رواں اور ہیرو ایک غیر ریاستی پٹھان تھا، اگر وہ درست تھی اور آپ اسکو آزادی کی تحریک مانتے ہو تو پھر اسی کا تسلسل پاکستان کی طرف سے شروع کی گئی موجودہ تحریک جہاد آپکی نظر میں کیونکر غلط ہے؟؟ اگر عبدالقدیر ہیرو ہے تو پشاور کا میجر مست گل ہیرو کیوں نہیں؟؟ پھر قبائلی حملہ بھی غلط نہیں، پھر جماعت اسلامی ، لشکر طیبہ اور دوسرے جہادی گروپ بھی غلط نہیں؟؟؟ پھر یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ یا تو آپ سب لوگ کنفیوژ ہیں جن پر قوم پرستی اور ترقی پسندی کا محض لیبل چسپاں ہے اور آپکو غلط اور درست بیانیے کی سمجھ ہی نہیں آ رہی یا پھر آپ اور یہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے پیج پر ہیں۔






Related News

.ریاست جموں کشمیر تحلیل ہورہی ہے

Spread the loveتحریر خان شمیم انیس سو سینتالیس کی تقسیم برصغیر کے منحوس سائے آسیبRead More

پوليس گردی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی باغ کا احتجاجی مظاہرہ ، رياستی بربريت کی شديد مذمت

Spread the loveباغ، پونچھ ٹائمز پاکستانی زير انتظام جموں کشمير کے ضلع باغ ميں عوامیRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *