Main Menu

آئرلينڈ بطور غلام منڈی ۔۔ تاريخی حقائق

Spread the love


آئرلينڈ ميں غلامی کے کاروبار کی ابتدا تيس ہزار آئريش قيديوں کو بطورِ غلام نئ دُنيا کو فروخت کرنے سے ہوئ۔ بادشاہ جيمز اوّل کا اعلان کہ 1625 مطلوب سياسی قيديوں کو باہر کے ممالک ميں بھيجا جائے گا وہ قيدی ويسٹ انڈيز ميں مقيم برطانوی نژاد لوگوں کے ہاتھ فروخت کئے گۓ۔ سولويں صدی کی دہائ ميں آئرلينڈ ارجنٹينا اور مونٹسيرات کی غلام منڈی بن چُکا تھا۔ اُس وقت مونٹسيرات کی کُل آبادی کا ستر فيصد حصہ آئريش غلاموں پر مشتمل تھا۔ آئرلينڈ جلد ہی انگريز کاروباريوں کے لئے غلام حاصل کرنے کا سب سے بڑا زريعہ بن گيا۔ اسطرح ابتدا ميں نئ دُنيا کو جو غلام مہيا کيے گۓ اُن ميں اکثريت اصل ميں گوروں يعنی سفيد النسل لوگوں کی تھی۔ 1641 سے 1652 تک انگريزوں نے پانچ لاکھ آئريش باشندوں کو قتل جبکہ تين لاکھ باشندے بطور غلام فروخت کر ديے تھے۔ اسطرح آئرلينڈ کی آبادی محض ايک دہائ ميں ہی ايک کروڑ پانچ لاکھ سے کم ہو کر صرف چھ لاکھ رہ گئ تھی۔ پورے اوقيانوس ميں خاندانوں کو تقسيم کر ديا گيا تھا چونکہ انگريز يعنی برطانوی نہيں چاہتے تھے کہ خاوند اپنی بيويوں اور بچوں کے ساتھ رہيں۔ يہ عمل بے گھر عورتوں اور بچوں کی نادار آبادی کی وجہ بنا۔ برطانوی اُنہيں نيلام بھی کرتے تھے۔ 1650 کی دہائ ميں دس سے چودہ سال کی عمر کے تقريباً ايک لاکھ بچے والدين سے چھين کر ويسٹ انڈيز،ورجينيا اور نيو انگلينڈ ميں فروخت کئے گۓ۔ اس دہائ ميں باون ہزار آئريش باشندے جن ميں بچوں اور خواتين کی اکثريت تھی کو بارباڈوس اور ورجينيا ميں فروخت کيا گيا۔ جبکہ تيس ہزار مزيد مرد و خواتين زيادہ ٹينڈر بھرنے والوں کے ہاتھ فروخت کر ديے گۓ تھے۔ 1656 ميں کروم ول کے حُکم کے مطابق دو ہزار آئريش بچے جيميکا ميں مقيم انگريزوں کو بطورِ غلام فروخت کئے گۓ۔ آج بہت سے لوگ يہ کہنے سے گريز کرينگے کہ آئريش لوگ غلام تھے حالانکہ وہ حقيقی معنوں ميں غلام ہی تھے۔ جو کچھ آئريش باشندوں کے ساتھ پيش آيا اُسے غلامی کہنے کی بجاۓ يہ لوگ “معاہداتی ملازم” کی اصطلاح استعمال کرتے ہيں۔ تاہم اکثريتی واقعات ميں سترويں اور اٹھارويں صدی سے آئريش باشندے انسانی شکل ميں مويشيوں سے زيادہ کچھ نہ تھے۔ مثال کے طور پر افريقی غلاموں کا کاروبار بھی اُسی وقت ميں ہی شروع ہوا۔ اور يہ اچھی طرح سے محفوظ ہے کہ افريقی غلام نفرت انگيز کيھولک مذہب کے دھبوں سے داغدار نہ تھے اور اپنے آئريش ہم منصوبوں سے زيادہ قيمت پر خريدے بھی جا تے تھے اور اُن سے قدرے بہتر سلوک بھی کيا جاتا تھا۔ سولویں صدی کی آخری دہاہيوں ميں افريقی غلام خاصے مہنگے تھے اُنکی قيمت پچاس سٹرلنگ تک تھی جبکہ آئريش غلام انتہائ سستے تھے اُنکی قيمت پانچ سٹرلنگ سے زيادہ نہ تھی۔ مالک کی جانب سے آئريش غلام کو کوڑے مارنا ، اُس پہ بطور برانڈ لکھائ کرنا يا اُسے موت کے گھاٹ اُتارنا کوئ جُرم نہيں تھا۔ گو کہ آئريش غلام کی موت مالک کا معاشی نقصان تھا مگر مہنگے افريقی غلاموں کو مارنے کی نسبت انتہائ کم تھا۔ جلد ہی انگريز مالکوں نے ذاتی راحت اور مزيد منافع دونوں کے لئے آئريش خواتين کی افزائشِ نسل شروع کر دی۔ ان عورتوں سے پيدا ہونيوالے بچے بھی غلام ہی ہوتے تھے جو کہ مالک کے لئے مفت کام کرنے والوں ميں اضافے کا سبب بنتے تھے۔ اگر کوئ آئريش خاتون کسی بھی طرح آزادی لے بھی ليتی تو اُس کے بچے غلام ہی رہتے تھے۔ اسليے آئريش مائيں نئ ملنے والی نجات کے باوجود اپنے بچوں کی وجہ سے مالک کی بندگی پر قاہم رہتيں تھيں۔ اُس وقت انگريزوں نے اپنے مارکيٹ شيئر ميں اضافے کے لئے ان عورتوں (جن ميں اکثريت حتی کہ بارہ سالہ نوجوان لڑکيوں کی تھی)کے استعمال کئ بہتر ترکيب سوجھی۔ انگريز مالک واضع رنگت کے غلاموں کے حصول کے لئے آئريش لڑکيوں اور عورتوں کا افريقی غلام مردوں کے ساتھ جنسی ملاپ کرواتے۔ اور يوں يہ نۓ “مُلاٹو” غلام آئريش انسانی مویشیوں سے زيادہ فاہدے مند ثابت ہوتے اور نۓ افريقی غلاموں کی خريداری کے بجاۓ مالکوں کی بچت ميں خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔ آئريش عورت اور افريقی مرد کے ملاپ سے افزائش نسل کا يہ طريقہ کئ دہائيوں تک رائج رہا۔ 1681 ميں قانون پاس ہوا جس ميں فروختگی کے لئے نۓ غلام پيدا کروانے کو آئريش خواتين اور افريقی مردوں کے جنسی ملاپ کے زريعے افزائشِ نسل کا طريقہ ممنوع قرار ديا گيا۔ مختصراً يہ بند اسليے ہوا کہ چونکہ اس طريقہ کار سے غلام سپلائ کرنے والی ايک بڑی کمپنی کے منافع پر اثر پڑتا تھا۔ انگلينڈ نے ہزاروں آئريش غلاموں کی ترسيل کا سلسلہ ايک صدی سے بھی زيادہ تک جاری رکھا۔ريکارڈ بتاتا ہے کہ 1798 کی آئريش بغاوت کے بعد ہزاروں آئريش غلام امريکہ اور آسٹريليا دونوں ممالک کو فروخت کئے گۓ۔ وہاں افريقی و آئريش غلاموں کے ساتھ انتہائ وحشتناک سلوک کيا جاتا تھا۔ حتی کہ ايک برطانوی بحری جہاز کے عملے نے اپنے کھانے کو تھوڑی سی خوراک کے عوض 1302 غلاموں کو بحرِ اوقيانوس ميں ڈبو ديا تھا۔ اس ضمن ميں زيادہ سوال نہيں ہے کہ سترويں صدی ميں آئريش غلاموں نے غلامی کی وحشت ناکیوں کا زيادہ سامنا کيا کہ افريقی غلاموں نے اور نہ ہی اس بارے ميں کہ ويسٹ انڈيز کی جانب سفر کرتے ہوۓ وہ بھورے چہروں والے آپکے ہمسفر آئريش و افريقی النسل اجداد کا ممکنہ امتزاج ہيں۔ 1839 ميں برطانیہ نے جہنم کی جانب جانے والے شيطانی راستے يعنی غلاموں کی ترسيل کے عمل کو خود ہی ترک کرنے کا فيصلہ کيا۔ تاہم اُنکا يہ فيصلہ بحری قزاقوں کو اپنی خواہشات کے مطابق عمل کرنے سے نہيں روک پايا۔ آہستہ آہستہ نۓ قانون نے آئريش غلامی کی اس ڈروانی مصيبت کا خاتمہ کيا۔ ليکن اگر کوئ بھی کالا يا گورا يہ يقين رکھتا ہے کہ غلامی صرف افريقيوں کا ہی تجربہ تھی تو وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ آئريش غلامی ہماری ياداشت سے مٹانے کی بجاۓ ياد رکھنے کے قابل ہے۔

(ڈینیل وسریٹ کی کتاب “آئريش لائوز مٹر” سے اقتباس)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *