Main Menu

صدی کا المیہ حبیب رحمان

Spread the love

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر جو غرور تھا وہ غرور ہے
انسانی معلوم تاریخ میں جبر کے خلاف مزاحمت ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ہےآزاد انسان کو جب بھی اس پیدائشی آزادی سے محروم کیا گیا یا کرنے کی کوشش کی گئی تو انسان اپنی جبلت آزاد رہنےکی خواہش کے موجب آزادی چھننے کے خلاف صف آرءا ہوتا رہاہے کبھی سرفراز ہوا کبھی تاریخ میں زندہ جاوید ہوکر مرنے سے انکار کرگیا، مرنے سے انکار کے افکار نسل در نسل منتقل ہوکرانسانی آزادی کا استعارہ بن گئے تبھی تو مارکس نے کہا تھا کہ” پورے انسانی معاشرے کی تاریخ دو طبقوں کے درمیان کشمکش کی تاریخ ہے” دنیا کے ہر حصے میں قومیں اپنی آزادی اور عوام اپنی خوشحالی کیلئے برسر پیکار ہیں مزدور و کسان اپنی محرومیوں اور بھوک کے خلاف لڑ رہے ہیں ان کی یہ لڑائیاں کہیں کمزور ہیں اورکہیں طاقت ور لیکن جبر اور غلامی سہنے سے انکار ہی ان کی حوصلہ مندی اور بہادری کی علامت ہے،اس تناظر میں ریاست جموں کشمیر میں جو تیز ترین تبدیلیاں لائی جارہی ہیں، ریاست کے اجتماعی شعور کو فرقہ ورانہ نفرتوں اور بےگناہی کے خون میں ڈبویا جارہا ہے تو اس مسئلے کے ان تمام کرداروں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے جو اس انسانی المیہ کا سبب ہیں اور جن کی وجہ سے یہ ریاست لہولہان ہوچکی ہے انسان عظمت تار تار اور وقار بے توقیر کیا جارہا ہے اس بدقسمت ریاست کے قابضین (پاکستان، بھارت) نے اپنی اپنی حوس ملک گیری کی گناہ آلود خواہش کو پورا کرنے کیلئے اس انسانی آبادی حتیٰ کہ چرند پرند اور حیوانات بھی زندگی سے محروم کیئے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف جھوٹ اور مسخ شدہ من گھڑت کہانیوں کا ڈھول پیٹ پیٹ کر سچ کو قتل کرنے کے لیئے حملے مسلسل جاری ہیں خودتراشیدہ دھوکے بازی کو سچ کہہ کر تسلیم کروانے کیلئے بندوق، جھوٹ، لالچ اور خوف کے سارے ہتھیار اور ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ، ایسے میں پہلے سے بھی زیادہ حوصلے کے ساتھ صورتحال کو واضح کرنے کیلئے زیادہ زوردار آوازوں کی ضرورت ہے۔یہ بدقسمت ریاست آج سے کوئی ایک سو بہتر سال پہلے یعنی 1846 کو مہاراج گلاب سنگھ نے قائم کی تھی اس کے قیام کے پیچھے محرکات جو بھی ہوئے ہوں بحرحال یہ ریاست قائم کردی گئی اور طرز حکومت اسی طرح کا تھا جو رائج الوقت تھا بادشاہت اور رعایا برصغیر پر انگریزوں کے قبضہ کے انگ میں اس طرح کی ریاست کا وجود میں آجانا ازحد خود ایک متانت آمیز دانش مندی نہیں تو کم از کم ہوش مندی ضرور تھی کہ اس ریاست کے بادشاہ تما م بکھرے حصوں کو جوڑ کر ایک ریاست قائم کردی جو ریاست جموں کشمیر و تبتہا کے نام مشہور بھی ہوئی اور تسلیم بھی ظاہر ہے اس کے قیام کے لیے وہ سارے حربے اختیار کیے گئے جو اس وقت کے بادشاہوں یا مہاراجوں کے طرز حکمرانی کے لیے رائج تھے اس ریاست کے بادشاہ مہاراجہ نے بھی ان تمام حکمت عملیوں کو اختیار کیا ہمالیہ کے دامن کی یہ جنت جبر امید مایوسی اور افسردہ قسم کی ہنسی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آتی گئی، برصغیر کی 564 ریاستوں کے برعکس اس ریاست کے بادشاہوں نے اس ریاست کو نہ صرف جوڑے رکھا بلکہ منفرد طور پر اس کی ایک الگ شناخت اور مالکی کی ایک روداد بھی لکھ چھوڑی جو اس ریاست کے عوام کو ممتاز اور محفوظ کرگئی۔
1927 میں بادشاہ نے اس ریاست کے عوام کو ایک حکم نامے کے ذریعے اس ریاست کا ایسا مالک بنا دیا کہ اس زمین کو اس کے رہنے والوں کے علاوہ کوئی نہیں خرید سکتا ہے جسے (اسٹیٹ سبجیکٹ) یا پشتنی باشندہ ریاست کا نام دیا گیا یہ قانون بادشاہ نے اپنی من مرضی کے مطابق نہیں بلکہ ڈوگر سہباجموں اور کشمیری پنڈتوں کی تنظیموں کے مطالبہ پر بنایا تھا جس نے آج تک اس ریاست کے تمام حصوں (جموں، کشمیر، لداخ، گلگت، بلتستان، پونچھ وغیرہ) کے تمام شہریوں کے لیے اس ریاست کے حق ملکیت کو محفوظ بنائے رکھا۔ باوجود اس کے کہ غربت محرومی اور تنگدستی تو موجود تھی لیکن شاید کوئی ایک بھی شہری ایسا نہیں جس کے پاس اپنی زمین اور رہنے کے لیے مکان نہ ہو، یعنی بے گھری نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے یہ الگ بات کے روٹی کی تلاش میں ہجرت کا سفر تو یوہنوں جاری ہے لیکن اپنی سرزمین سے دستبرداری کا تو شائبہ تک ذہنوں مین موجود نہیں بھلے سے ہندو مسلمان کی تفریق بڑھ رہی ہو نفرت ڈیرے ڈالے رکھے لیکن سب ہی کا ریاست سے دستبرداری سے انکار ہے۔
1947 برطانیہ کے قبضے میں برصغیر کے لوگ اپنی آزادی کی جدوجہد میں پرجوش شریک تھے کہ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ معاشی کسادبازاری کا اس حد تک شکار ہوگیا کہ چارو ناچار اس نے برصغیر سے جاناہی تھا جانے سے پہلے اس نے اس کا اچھی طرح اطمینان کرلیا کہ پیچھے چھوڑ جانے والے برصغیر میں عقیدوں کی بنیاد پرایسی مذہبی نفرتوں کے بیج بوئے کہ لاکھوں لوگوں کو ہندو مسلمان قراردےکر قتل کرنے بعد بھی ان مذاہب کے ماننےوالے نفرتوں سے جان چھڑانے کیلئے نا تو تیار ہیں اور نہ ہی ان کو سنجیدگی سے سوچنے کی طرف راغب ہونے دیا جارہا ہے اندھیروں کی قوتیں اس کو بجھنے نہیں دیتی۔
بحرحال برصغیر کے بٹوارے میں دو ملک بھارت اور پاکستان بنادیئے گئے اور ریاستوں کو ان دونوں ملکوں میں کسی ایک کے ساتھ جانا تھا یہ وہ ریاستیں تھیں جو براہ راست برطانیہ کے زیر قبضہ تھیں جبکہ جموں کشمیر کی ریاست براہ راست برطانیہ نے کنٹرول میں نہیں تھی اور نہ ہی برطانیہ کے قوانین اس پر اس طرح لاگوں ہوتے تھے جس طرح باقی ریاستوں پہ لاگوتھے۔ جبکہ ریاست کا بادشاہ (مہاراجہ) ان دونوں ملکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جانے کے کیلئے نہ تو تیار تھا اور نہ ہی اس کے شایان شان تھا سو مہاراجہ ریاست نے دونوں ملکوں کے ساتھ (Stand Still) یعنی جوں کانوں رہنے کے معاہدے کی پیش کش کی 15 اگست 1947 کو پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے پیش کش قبول کرکے معاہدے پر دستخط کردیئے جبکہ بھارت نے اس پر مزید سوچ بیچار کاکہہ کر اس پر فوری دستخط نہیں کیئے یہ ان کی حکمت عملی تھی یا مجبوری بحرحال اس معاہدے پر دستخط نہ کیے۔
22 اکتوبر 1947:
دوسری طرف مہاراجہ ریاست ایک طرف سے اس حد تک مطمئن ہوکر بے فکر ہوگیا کہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے اب اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں بظاہر تو پاکستان کے ارباب اختیار نے مہاراجہ کو ایک خوبصورت تاثر دیکر مطمئن تو کردیا جبکہ درپردہ وہ جہادی جتھوں کی تیاری میں مصروف رہا ایک حاضر سروس پاکستانی فوج کے میجر خورشید انور کو پختون خواہ کے قبائل کو جنت اور مال غنیمت کی بے پناہ فراوانی اور کافروں کے ظلم وستم کی کہانیاں سنا سنا کر ریاست پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار کیا ان کے لیے بندوقوں کا انتطام کرکے ٹرکوں میں بھرکرریاست میں داخل کردیا گیا ان پختون قبائلی جتھوں نے ریاست میں وہ مظالم ڈھائے کہ ایک قیامت برپا ہوگئی عورتوں کی عزتوں کا کھلواڑ بچوں بوڑھوں کا قتل، لوٹ مار ، بلاتخصیص عقیدہ و مذہب کے جارہی رہی رد عمل میں جموں میں بھی ایک مذہب کے ماننے والوں نے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا سو خدا کی اس فوج نے سرینگر تک کو قبضے میں لے لیا ادھر مہاراجہ ریاست پاکستان کی اس عہد شکنی پر براندام رہ گیا افسردگی اور مایوسی میں وہ جموں منتقل ہوگیا اور بھارتی حکومت سے مدد کی اپیل کی کہ حملہ آوروں سے ریاست بچانے کے لیے مدد کی جائے لیکن بھارتی حکومت نے یہ کہہ کر مدد سے انکار کردیا کہ بغیر کسی معاہدے کے ہم ریاست کو بچانے میں کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ ایک طرف بھارتی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا ہوا تھا جبکہ دوسری طرف اندرون خانہ وہ مہاراجہ کی مجبوری اور کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں تھی ، اسی کشمکش میں مہاراجہ عارضی الحاق کے ایک معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہوگیا اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کی مشروط اور عارضی دستاویز پر دستخط ہوگئے جس میں مہاراجہ نے چار چیزوں کا اختیار بھارتی حکومت کو دے دیا، جس میں دفاع ، خارجہ امور کرنسی وغیرہ شامل تھی کہ جب ریاست میں امن بحال ہوجائے تو اختیارات واپس مہاراجہ کو منتقل ہوجائیں گے اس اشنا میں ہندوستانی حکومت اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر چلی گئی یوں یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے روسڑ پر آگیا جس میں متعدد قراردیں منظور کی گئی ایک قرارداد یہ پاس کی گئی کہ رائے شماری کے ذریعے ریاست عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، پاکستان کے ساتھ یا پھر آزاد حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں، اس قرارداد کو پاکستان نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور پولینڈ کے ذریعے ایک نئی قرارداد پیش کروائی گئ جس میں آزاد رہنے کے آپشن کوختم کروایا دیا گیا، ہندوستان کے لیے بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں تھا ، یوں آزاد رہنے کے امکان کو رد کرواکے حق رائے دہی کو محدود کردیا گیا اور ریاست کو دو ملکوں کے درمیان علاقائی تنازعہ بنادیا گیا وسیع تر عوام کی رائے و خواہش کا نہ تو احترام کیاگیا اور نہ ہی ان کو اس ریاست کے شہری کے طور پر ان کی مالکی کواہمیت دی گئی۔
بحرحال اقوام متحدہ کے شیڈول چھ (6) کے تحت منظور کی جانے والی قرارداد میں رائے شماری (محدود) کروانے پر زور دیا گیا پاکستان کو حملہ آور قرار دے کر تمام فوج اور پرائیویٹ جتھے (جو 22 اکتوبر 1947 کو داخل کردیے گئے تھے) اور ہندوستان اپنی اکثریتی فوج کو واپس بلائےگا پھر اقوام متحدہ اہنی کمیشن کے ذریعےاصتصواب رائے کا انتظام کرے گا۔اس اصتصواب کے لیئے دونوں ملکوں کا باہم رضامند ہونا ضروری تھا اگر فریقین رضامند نہ ہوں تو شیڈول ششم کے تحت کیے گئے فیصلوں پر عمل در آمد نہیں کیا جاسکتا ہے ، سو اس پر عمل در آمد نہیں ہوا۔
درپردہ انفرادی طور پر دونوں ملک ریاست کے اندر اپنے من پسند افراد اور بونے قسم کے سیاستدان گھڑنے کی کوشش کرتے رہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے متحدہ ریاست کا پرچم جو ظاہر ہے ایک شخصی حکمران نے بنایا تھا 1949 میں پاکستان نے اس کوختم کردیا جبکہ 1952 میں ہندوستانی حکومت نے ریاست کے اس حصے سے ختم کردیا جس کا واضح مفہوم یہ تھا کہ اس ریاست میں کوئی ایسی علامت باقی نہ رہے جو اس ریاست کی یونٹی کا اظہار رکر رہی ہو ، یہی نہیں 28 اپریل 1949 کو پاکستان نے اپنے زیر قبضہ ریاست کے حصے کے اپنے تراشیدہ لیڈروں کے ذریعے گلگ بلتستان کو اپنے قبضے میں لے کر ان کے بنیاد ی انسانی اور جمہوری حقوق سلب کرکے قبائلی ایریا کے FRC قانون کے حوالے کردیا گیا، باقی ماندہ ریاست کے اس حصے سے نہ کوئی آواز ابھری نہ احتجاج سو وہاں جبر دن بدن مضبوط ہوگیا۔ دوسری طرف بھارت کے زیر کنٹرول ریاست میں ڈاکٹر کرن سنگھ بطور صدر اور شیخ محمد عبداللہ بطور وزیر اعظم کام کرتے رہے اس دوران 1952 میں شیخ عبداللہ بحیثیت وزیر اعظم جموں کشمیر اور پنڈت نہرو بطور وزیراعظم ہندوستان نے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے جس میں مہاراجہ کے 1927 کے بنائے باشندہ ریاست کے قانون کو تسلیم کرکے اس کو ریاست کے تمام حصوں میں یکسان طور پہ لاگو رہنے دینا کا معاہدہ کرلیا، لیکن اس کے فوراً بعد ہندوستان نے اپنے زیادہ وفادار بنائے گئے ایک گروہ کے ذریعے کی گئی سازشوں کے تحت شیخ عبداللہ کو گرفتار کرکے اس کی جگہ بخش غلام محمد کو ریاست کا وزیر اعظم بنواکر اس کے ذریعے ریاست کے اس سٹیٹس کو ختم کرکے وہاں وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ اور صدر کو گورنر کے عہدوں میں تبدیل کردیا، یوں ریاست کا وہ حصہ ایک نئے بحران میں داخل ہوگیا، جس سے عوام مسلسل مایوسی کے شکار ہوتے گئے، بے چینی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔جبکہ پاکستان کے زیر کنٹرول حصہ جس میں سے گلگت بلتستان کو پہلے ہی کاٹ دیا گیا تھا میں ایک بے اختیار حکومتی سیٹ اپ چلایا جاتا رہا ، تاوقتیکہ لیکر پاکستان نے اپنے ہی بنائے ہوئے صدر ابراہیم خان (جسے پاکستان 1947 میں بھرپور استعمال کرکے ریاست تقسیم کروانے میں اہم کردار ادا کرواچکا تھا) کو معزول کرکے پاکستانی فوج کے ایک کرنل شیر احمد کو صدر بنادیا گیا، ردِ عمل کے طور پر اس حصے کے عوام نے بغاوت کا اعلان کرکے ایک متوازی حکومت چلانا شروع کردیا پاکستانی فوج نے بری طرح اس بغاوت کو کچل کے رکھ دیا جس کے بعد آج تک ریاست کے اس حصے میں پھر کوئی سر نہ اٹھا سکا، جس کسی نے بھی سر اٹھانے کی کوشش کی اس کو دبادیا گیا۔
ایک طرف ہندوستان ریاست کے اس حصے کو مختلف حلیوں ، بہانوں اور چالوں کے ذریعے ریاستی عوام کے درمیان دوریاں پیدا کروانے میں کردار ادا کرتا رہا جبکہ دوسری طرف پاکستان عقائد کو بنیاد بنا کر ریاستی عوام کو باہم نبرد آزما کرنے کی چالیس کامیاب سے چلتا رہا نتیجہ کے طور پر ریاست کے دونوں حصوں میں ٹوڈی گروہوں کی بڑے پیمانے میں آبیاری ہوتی رہی، حقیقی سیاسی عمل مفقود کردیا گیا۔پاکستان کے طالع آزما فوجی آمر طاقت کی زور آزمائی سے اپنے ہی عوام کو فتح کرتے رہے جس کا آخر پاکستان کے ایک حصے نے بغاوت کردی عین اسی موقع پر جب بغاوت اپنے عروج پر تھی، وادی کے دو نو عمر نوجوان نے بھارتی جہاز اغوا کرکے لاہور لے آئے جن کی بڑی آہ ؤ بھگت کی گئی لیکن دوسرے ہی لمحے ان کو ہندوستانی ایجنڈا قرار دیکر جیلوں میں ڈال دیا گیا بعد میں سزا سنانے والے منصفوں نے ان نوجوانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافی کو اقبالی بیان کے طور پر تسلیم کرلیا کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا تھا بحرحال پاکستان ٹوٹ کر ایک حصہ بنگلہ دیش بن چکا تھا 90000 کے قریب پاکستانی فوجی ہندوستان کے جنگی قیدی بن گئے جبکہ باقی بچے پاکستان کو ذالفقار بھٹو کے حوالے کردیا گیا، بھٹو حکومت نے 1974 میں گلگت بلتستان سے باشندہ ریاست کا قانون ختم کرکے وہاں کی زمین اونے پونے خریدنے کے لیئے دولت مندوں کے لیئے راستہ کھول دیا اس جبری فیصلے کے خلاف نہ تو (آزاد ) جموں کشمیر کی حکومت بول سکی نہ عوام کی سطح پر کوئی احتجاج ہوا یوں جبر کا یہ فیصلہ گلگت بلتستان کے عوام کے لیئے ایک نیا رِستہ زخم بن گیا۔ ( یہی نہیں 1960 کی دھائی میں پاکستان نے ریاست کی باقاعدہ فوج کو پاکستان آرمی میں ضم کر چکا تھا جس کو اے جے کے رجمینٹ کا نام دیا گیا) دوسری طرف عوامی سطح پر مقبول بٹ اور ان کے ساتھی متحدہ ریاست کی دوبارہ بحالی کے لیے سیاسی کام کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن 1971 میں اغوا کئے گئے بھارتی جہاز “گنگا” کو بنیاد بنا کر مقبول بٹ اور ان کے درجنوں ساتھیوں کو شاہی قلعہ میں ہندوستانی جاسوس ہونے کے الزامات میں سالوں تک تشدد و تذلیل کے بھینٹ چڑھا دیا گیا، بعد ازاں رہائی کے بعد مقبول بٹ واپس وادی(سرینگر) چلے گئے اور زیر زمین کام شروع کردیا، اسی بیچ بھارتی حکومت نے ان کو گرفتار کرلیا سالوں تک جیلوں میں رکھنے کے بعد 1984 میں ایک بھارتی سفارتکار “مہاترے” کے قتل کے بعد ان کو پھانسی دے دی گئی ( واضح رہے بھارتی سفارت کار مہاترے کو لندن میں اغوا کرکے قتل کردیا گیا تھا) مقبول بٹ جیسے آزادی پسند کی پھانسی سےریاست کے دونوں حصوں میں بے چینی پھیل گئی بڑی ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے عوام غصے سے بھر گئے تھے، لیکن دونوں ملکوں کے جبر نے آوازوں کو دبدیا۔تاآنکہ جولائی 1988 میں مقبول بٹ کے ساتھیوں نے ایک نئی جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر سرینگر میں مسلح کاروائیوں کا آغاز کردیا وادی کی مسلم آبادی نے بڑھ چڑھ کر ان کا ساتھ دیا، اس تنظیم کے لڑاکا نوجوانوں نے ربیعہ مفتی کے اغوا سے لیکر پروفیسر مشیرالحق( وائیس چانسلر کشمیر یونیورسٹی) کو قتل کرنے کی کاروائیوں کی ذمہ داری لے لی۔پاکستان کے خفیہ ادارے ایک طرف ایسی تنظیم کو مدد دے رہی تھے ( جو بظاہر غیر فرقہ ورانہ رجحانات کا اظہار کر رہی تھی اور ایک الگ ملک بنانے کی دعویدار تھی) تو دوسری طرف وہ مذہبی گروہوں کو بھی تشکیل دے رہی تھے جنہوں نے JKLF کی جگہ لینا تھی، اور ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو ٹھکانے لگانے کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کو بھی شکست دیکر ملت اسلامیہ کا جھنڈا لہرانا تھا یہ سب کچھ یہ خفیہ ادارے حاصل کرسکے یا نہیں لیکن ایک لاکھ کے قریب معصوم لو گوں کو قتل کروا دیا گیا تقریباً آدھا سرینگر بیواؤں اور یتیموں سے بھر گیا۔چھ لاکھ کے قریب کشمیری پنڈتوں کو وادی سے نکال دیا گیا یہ اتنی بڑی آبادی پچھلے 30 سالوں سےکیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور اور بے بس اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی فوج کے جبر کے نتیجے میں 250000 لوگ ریاست کے اس حصے (آزاد کشمیر) میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے جو آج بھی درجہ دوم کے شہری کے طور پر آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں ندی نالوں کے کناروں اپنی بستیاں بسائے اپنی بربادیوں کا سبب سوچ رہے ہیں۔
ان گذشتہ 30 سالوں میں بھارتی زیر قبضہ ریاست میں مذہبی نفرتوں کو اس قدر بڑھاوا دیا گیا کہ مقامی آبادی عقائد کی بنیاد پر نفرت اور غضب کی ایک ایسی غار میں چلی گئی کہ جس سے فوری طور واپسی کا امکان نظر نہیں آتا اس پر ہی بس نہیں بلکہ دھوکہ کے قلم سے لکھی گئی بھارتی جمہوریت نے بھارتی جنتا پارٹی کو اقتدار دے دیا اس نے فاشزم کو بڑھاوا دینے کے لیئے جماعت اسلامی کی طرز آر ایس ایس جیسی تنظیموں کو نہ صرف طاقت فراہم کی بلکہ ان کو بندوقوں سے مسلح کردیا بلکل اسی طرح جس طرح پاکستان نے جماعت اسلامی کے ذریعے جہادی گروہ تشکیل دیکر سرینگر میں اتارے تھے، ہندوستان کے نئے رجیم نے آر ایس ایس کے مسلح گروہ تشکیل دیکر پورے ہندوستان میں مسلمانوں سمیت سماج کے دوسرے کمزور حصوں کو مارنے دبانے اور برباد کرنے کے لیئے میدان میں اتار دیا۔ جس کی وجہ سے اثرات ریاست کے تمام حصے بری طرح متاثر ہوئے بالخصوص ہندو اکثریتی علاقے ہندو توا کے مرکز بن گئے، جس طرح مسلم اکثریتی علاقے مسلم جہادی گروہوں کی آماجگاہ بن گئے تھے اب جانے بھگوان اور خدا کی یہ جنگ کب اختتام پذیر ہوگی لیکن جموں کشمیر بحیثیت ریاست مزید برباد ہوتی جائے گی نفرت تذلیل اور ایک ہی نسل کے لوگ ایک دوسرے کوہندو مسلم قرار دیکر جانے کب تک ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں گے۔
دفعہ370 :
ہندوستان کے فاشسٹ رجیم نے ریاست کو حامل نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرکے ریاست کو مزید تقسیم کردیا، ظاہر ہےدفعہ 370 کے خاتمہ کے بعد ریاست کے تمام عوام (ہندو مسلم سکھ بدی عیسائی) بری طرح سے نہ صرف متاثر ہوئے ہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بری طرح گھائل ہوگئے ہیں ان کو چاروں شانے چت کرکے تقریباً ہر 10 آدمیوں پر ایک بندوق بردار فوجی تعینات کردیا گیا ہے سکول، کالیج بازار دفاتر سب کچھ تالہ بندی ہے جس کو یہ فسطائی حکمران امن و سکون کہتے ہیں۔
ذیلی دفعہ 35 A
اس دفعہ کے تحت ریاست کے شہری اپنی زمین کے خود مالک تھے ملکیت کا یہ حق ان سے چھین لیا گیا جس کو وہ پارلیمنٹ کی منظوری قرار دیکر لاگو کرنا چاہتے ہیں برے اور بددیانت لوگوں کی اکثریت کے بل بوتے پر انسان دشمن قوانین کو کسی طور پر بھی منصفانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔اور نہ ہی عوام اس کو تسلیم کریں گے ۔لیکن شاید ابھی دیر ہے۔
اب کدھر؟
ہندوستان
بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات نے صورتحال کو خوفناک بنادیا ہے ایک طرف ہندوستانی دولت مندوں اور بڑی بڑی کمپنیوں کو ریاست کی زمین بیچی جائے گی اور یہ کام وہ خوشحالی کے نام پر کریں گے اور دوسری طرف مقامی آبادی کے درمیان مذہبی نفرتوں کو بڑھاوا دینے کے لیے آر ایس ایس کی طرز کے گروپوں کو جہادیوں کے خلاف نبر آزما رکھنے کے نام پر مزید قتل عام کروایا جائے گا۔ عوام سے ان کی حقیقی آزادی کی خواہش اور متحدہ ریاست کی دوبارہ بحالی کی امنگ مٹانے کی کوشش کی جائے گی ان تمام حربوں کا ردِ عمل اتنا شدید ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کا مرکزی دھاراہل جائےگا ہندوستان میں مزاحمتی قوتیں چاہے وہ نکلسلائٹ ہو آدی واسی ہوں دلت ہوں ناگا ہوں یا میزورام سب ہی مل کر ایک بڑی مزاحمتی تحریک جنم دے سکتے ہیں ہندوستان غریبی اور محرومی کے اس عفریت کے سامنے ٹھر نہیں سکے گا۔ لیکن شاید وقت نے ابھی آواز نہیں دی۔
پاکستان
ہندوستانی اقدامات نے پاکستان کو حواس باختہ کردیا ، پاکستان کا نیا فسطائیت رجیم سمجھ ہی نہیں سکا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا اور اگر یہ سب کچھ ان کے علم میں تھا تو پھر جعلی قسم کی فسطائی آنسوؤں کی لڑی کس لیئے جو کچھ ہندوستان نے آج کیا ہے وہ یہ کچھہ 1949 سے لیکر آج تک کرتے آئے ہیں مصنوعی رونا دھونا ہمیشہ بے معنی ہوتا ہے، عملی طور پر بھارتی اور پاکستانی حکمران ریاست جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ایک سا برتاؤ کرتے ہیں ہندوستان وہاں لوگوں کو جیلوں میں بند کر کے لمبی لمبی سزائیں سناتا ہے بالکل اسی طرح ا س طرف 60 سال اور 90 سال کی سزائیں بھی گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو دی جارہی ہیں عوام کی نقل وحرکت پر سخت پابندیاں ہیں کتاب پڑہنے چھاپنے اور لکھنے پر پابندیاں عوام محاصرے میں چھپ چھپ کر سچ سوچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی دنیا
اب سوال یہ درپیش ہے کہ بین الاقوامی دنیا اس مسئلے کو کس طرح دیکھتی اور سمجھتی ہے اور کیا دنیا کو کوئی ایسی دلیل دی جاسکتی ہے کہ دنیا اس کو انسانی مسلئے کے طور پر سمجھنے کے لیے تیار ہوجائے۔
امریکہ جیسے بڑے ملک جس کی کل آبادی سے زیادہ ہندوستان کی مڈل کلاس ( تقریباً 50 کروڑ) ہے کیااا امریکہ اپنے 50 کروڑ گاہک ضائع کرنے کو تیار ہوگا۔
دنیا کےدوسرے ممالک کے جو کاروباری روابط ہندوستان کے ساتھ ہیں ان کی موجودگی میں دنیا ہندوستان کی مذمت کرے گی اس وقت تک مسلم ممالک نے اس کوہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے ۔ باقی دنیا کے مفادات کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے کو مذہبی مسئلہ قرار دیکر نظر انداز کردیں اور پھر کیا پاکستان کی اتنی ساکھ و احترام دنیا میں موجود ہے کہ دنیا ان کے رونے دھونے پر اعتبار کرلے جبکہ ان کی ساری تاریخ دروغ گوئی اور معاہدوں پر پورا نہ اترنے سے بھری پڑی ہے مسلم امہ کا یہ خدائی فوج دار ملک جہاں بھی گیا نفرت اور بربادی ساتھ لیکر آیا۔
کیا جموں کشمیر کے عوام قدم قدم پر دیئے جانے والے دھوکوں کو نظرانداز کرجائیں گے تاریخ کے حاصل شدہ اسباق میں تو اب یہ ممکن نہیں حرف آخر صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ریاست کے وسیع تر عوام ان جابروں اور قبضہ گیروں (انڈیا، پاکستان) کے جبر کو سہنے سے انکار کردیں وسیع عوامی تحریک کے ذریعے اپنی آزادی کی سچی اور حقیقی راہ کاانتخاب کرکے ساری دنیا اپنے ساتھ ملا سکتے ہیں بصورت دیگر قتل وغارت گری نفرت اور تذلیل سے جان خلاصی ممکن نہیں ہوگی۔ اور صدیوں کا یہ المیہ جاری رہیگا۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *