Main Menu

پاکستان فوج کا کارباری مرکز۔ جام بکھو

Spread the love


دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ معاشی سلطنت قائم ہے اور ملک کی کم و بیش %60 معیشت میں حصہ دار ہے، ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو غلط کام کرتا ہے اس کو کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔
اس سلطنت کے 4 حصے ہیں:
01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ
02۔ فوجی فاؤنڈیشن
03۔ شاہین فاؤنڈیشن
04۔ بحریہ فاؤنڈیشن
فوج ان 4 ناموں سے کاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبار وزارت دفاع کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.
نیشنل لاجسٹک سیل
NLC
ٹرانسپورٹ
یہ ملک کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ جس کا 1698 سے زائد گاڑیوں کا کارواں ہے اس میں کل 7279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے 2549 حاضر سروس فوجی ہیں اور باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔
فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (FWO):
ملک کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہے اور اس وقت حکومت کے سارے اہم
Constructional Tenders
جیسے روڈ وغیرہ ان کے حوالے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینے کے لیے بھی اس ادارے کو رکھا گیا ہے۔
ایس سی او SCO:
اس ادارے کو پاکستان کے جموں کشمیر، فاٹا اور
Northern Areas
میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ہے۔
مشرف سرکار نے ریٹائرمنٹ کے بعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 56 ہزار سول عہدوں پر فوجی افسر متعین ہیں جن میں 1600 کارپوریشنز میں ہیں۔
پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علائقے کی 1800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رساء ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس پیٹرول پمپس اور اہم ہوٹلز بھی ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔
15 فروری 2005 میں سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سے الگ بھی نہیں ہے۔ مندرجہ زیل لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔

آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس:
01۔ آرمی ویلفیئر نظام پور سیمنٹ پروجیکٹ
02۔ آرمی ویلفیئر فارماسیوٹیکل
03۔ عسکری سیمینٹ لمٹیڈ
04۔ عسکری کمرشل بینک
05۔ عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمٹیڈ
06۔ عسکری لیزنگ لمیٹیڈ
07۔ عسکری لبریکینٹس لمیٹڈ
08۔ آرمی شوگر ملز بدین
09۔ آرمی ویلفیئر شو پروجیکٹ
10۔ آرمی ویلفیئر وولن ملز لایور
11۔ آرمی ویلفیئر یوزری پروجیکٹ
12۔ آرمی ویلفیئیر رائس لاہور
13۔ آرمی اسٹینڈ فارم پروبائباد
14۔ آرمی اسٹینڈ فارم بائل گنج
15۔ آرمی فارم رکبائکنتھ
16۔ آرمی فارم کھوسکی بدین
17۔ رئیل اسٹیٹ لاہور
18۔ رئیل اسٹیٹ روالپنڈی
19۔ رئیل اسٹیٹ کراچی
20۔ رئیل اسٹیٹ پشاور
21۔ آرمی ویلفیر ٹرسٹ پلازہ راولپنڈی
22۔ الغازی ٹریولز
23۔ سروسز ٹریولز راولپنڈی
24۔ لیزن آفس کراچی
25۔ لیزن آفس لاہور
26۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کمرشل مارکیٹ پروجیکٹ
27۔ عسکری انفارمیشن سروس
فوجی فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس
01۔ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان
02۔ فوجی شوگر ملز بدین
03۔ فوجی شوگر ملز سانگلاہل
04۔ فوجی شوگر ملز کین اینڈیس فارم
05۔ فوجی سیریز
06۔ فوجی کارن فلیکس
07۔ فوجی پولی پروپائلین پروڈکٹس
08۔ فاؤنڈیشن گیس کمپنی
09۔ فوجی فرٹیلائیزر کمپنی صادق آباد ڈیرکی
10۔ فوجی فرٹیلائیزر انسٹیٹیوٹ
11۔ نیشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجیکٹ
12۔ فاؤنڈیشن میڈیک کالج
13۔ فوجی کبیر والا پاور کمپنی
14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائیزر گھگھر پھاٹک کراچی
15۔ فوجی سیکیورٹی کمپنی لمیٹڈ

شاہین فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:
01۔ شاہین انٹرنیشنل
02۔ شاہین کارگو
03۔ شاہین ایئرپورٹ سروسز
04۔ شاہین ایئرویز
05۔ شاہین کامپلیکس
06۔ شاہین پی ٹی وی
07۔ شاہین انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سسٹم

بحریہ فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:
01۔ بحریہ یونیورسٹی
02۔ فلاحی ٹریڈنگ ایجنسی
03۔ بحریہ ٹریول ایجنسی
04۔ بحریہ کنسٹرکشن
05۔ بحریہ پینٹس
06۔ بحریہ ڈیپ سی فشنگ
07۔ بحریہ کامپلیکس
08۔ بحریہ ہاوسنگ
09۔ بحریہ ڈریجنگ
10۔ بحریہ بیکری
11۔ بحریہ شپنگ
12۔ بحریہ کوسٹل سروس
13۔ بحریہ کیٹرنگ اینڈ ڈیکوریشن سروس
14۔ بحریہ فارمنگ
15۔ بحریہ یولڈنگ
16۔ بحریہ شپ بریکنگ
17۔ بحریہ یاربر سروسز
18۔ بحریہ ڈائیونگ اینڈ سالویج انٹرنیشنل
19۔ بحریہ فاؤنڈیشن کالج بہاولپور

ملک کے تمام بڑے شہروں میں موجود کینٹونمنٹ ایریاز, ڈیفینس ہاوسنگ سوسائیٹیز, عسکری ہاوسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔

ہم میں سے یہ حقیقت کسی کو معلْوم نہیں کہ فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے خسارے, کرپشن اور بدانتظامی میں سٹیل مل اور پی آئی اے سمیت کسی سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں۔
اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مْلک اور بیرونِ مْلک سے لیے ہْوئے قرضوں کو ایکْوئیٹی دکھا کر بیلینس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔
یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار بار ریپیٹ ہوتا ہے اور ہر آڈٹ سے پہلے گورنمنٹ سے بیل آوٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکِن ہر گورنمنٹ خْود ان کو بیل آوٹ پیکج دینے پر مجبور پاتی ہے اور جو دینے میں تامل کرے تو حکْومت گرنے کے اسباب ایسے پیدا ہوتے ہیں، جیسے بارش سے پہلے بادل آتے ہیں۔
سول حکْومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آوٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اْنکا سْود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش %40 بچتا ہے پھر خسارہ پْورا کرنے اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا گول چکر ہے جِس میں قوم آہستہ آہستہ ایسے پھنستی چلی جا رہی ہے کہ ہر گْزرتا سال پچھلے سال سے مْشکل ہوتا جا رہا ہے۔
جنرل نالج؟
وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ،
سیکریٹری داخلہ۔۔۔ میجر سلیمان اعظم
اٹارنی جنرل۔۔۔ کیپٹن انور منصور
آئی جی پنجاب۔۔۔ کیپٹن عارف نواز
چیئرمین سی پیک اتھارٹی۔۔۔ جنرل عاصم باجوہ
چیئرمین پی آئی اے۔۔۔ایئرمارشل ارشد محمود
چیئرمین واپڈا۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین
۔مینیجنگ ڈائیریکٹر ہی ٹی وی۔۔۔ میجر جنرل آصف غفور
ڈائیریکٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی۔۔سکوڈرن لیڈر شاہ رخ نصرت۔
ڈائیریکٹر جنرل۔۔ اینٹی نارکوٹکس فورس۔۔ میجر جنرل عارف ملک۔
ڈائیریکٹر۔۔ ایرپورٹ سیکیورٹی فورس۔ میجر جنرل ظفر الحق۔
ممبر فیڈرل پبلک سروس کمیشن۔۔ میجر جنرل عظیم
نیشنل ڈزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی۔ لیفٹینٹ جنرل عمر محمود
وزیر اعظم ھاؤسنگ اتھارٹی۔۔ لیفٹیننٹ جنرل سید انوار علی حیدر
ڈائیریکٹر سپارکو: میجر جنرل قیصر انیس
ڈائیریکٹر ایرا اتھارٹی۔۔۔ لیفٹیننٹ جنرل عمر محمود حیات
ڈائریکٹرجنرل نیب لاھور۔۔۔ میجر شہزاد سلیم
لیفٹیننٹ جنرل (رٹائیرڈ) انورعلی حیدر کو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا چیرمین تعینات کر دیا گیا
1955ء میں کوٹری بیراج کی تکمیل کے بعدگورنرجنرل غلام محمدنیا آبپاشی سکیم شروع کی
4 لاکھ مقامی افراد میں تقسیم کی بجائے یہ افراد زمین کے حقدار پائے
1:جنرل ایوب خان۔۔500ایکڑ
2:کرنل ضیااللّہ۔۔500ایکڑ
3:کرنل نورالہی۔۔500ایکڑ
4:کرنل اخترحفیظ۔۔500ایکڑ
5:کیپٹن فیروزخان۔۔243ایکڑ
6:میجرعامر۔۔243ایکڑ
7:میجرایوب احمد۔۔500ایکڑ
8:صبح صادق۔۔400ایکڑ
صبح صادق چیف سیکرٹری بھی رھے
1962ء میں دریائے سندھ پرکشمورکے قریب گدوبیراج کی تعمیرمکمل ہوئی۔
اس سے سیراب ہونیوالی زمینیں جن کاریٹ اسوقت5000-10000روپے ایکڑ تھا۔عسکری حکام نے صرف500روپے ایکڑکے حساب سے خریدا۔
گدوبیراج کی زمین اس طرح بٹی:
1:جنرل ایوب خان۔۔247ایکڑ
2:جنرل موسی خان۔۔250ایکڑ
3:جنرل امراؤ خان۔۔246ایکڑ
4:بریگیڈئر سید انور۔۔246ایکڑ
دیگر کئی افسران کو بھی نوازا گیا۔
ایوب خان کے عہدمیں ہی مختلف شخصیات کومختلف بیراجوں پرزمین الاٹ کی گئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:ملک خدا بخش بچہ
وزیر زراعت۔۔158ایکڑ
2:خان غلام سرور خان،
وزیرمال۔۔240ایکڑ
3:جنرل حبیب اللّہ
وزیرداخلہ۔۔240ایکڑ
4:این-ایم-عقیلی
وزیرخزانہ۔۔249ایکڑ
5:بیگم عقیلی۔۔251ایکڑ
6:اخترحسین
گورنر مغربی پاکستان۔۔150ایکڑ
7:ایم-ایم-احمد مشیراقتصادیات۔۔150ایکڑ
8:سیدحسن
ڈپٹی چیرمین پلاننگ۔۔150ایکڑ
9:نوراللّہ ریلوے انجیئر۔۔150ایکڑ
10:این-اے-قریشی
چیرمین ریلوے بورڈ۔۔150ایکڑ
11:امیرمحمد خان
سیکرٹری صحت۔۔238ایکڑ
12:ایس-ایم-شریف سیکرٹری تعلیم۔۔239ایکڑ
جن جنرلوں کوزمین الاٹ ہوئی۔انکی تفصیل یوں ہے:
1:جنرل کے-ایم-شیخ۔۔150ایکڑ
2:میجر جنرل اکبرخان۔۔240ایکڑ
3:برئگیڈیر ایف-آر-کلو۔۔240ایکڑ
4:جنرل گل حسن خان۔۔150ایکڑ

گوھر ایوب کے سسرجنرل حبیب اللّہ کوہربیراج پروسیع قطعی اراضی الاٹ ہوا۔
جنرل حبیب اللّہ گندھاراکرپشن سکینڈل کے ہم کردارتھے۔

جنرل ایوب نے جن ججزکوزمین الاٹ کی۔
1:جسٹس ایس-اے-رحمان 150ایکڑ
2:جسٹس انعام اللّہ خان۔۔240ایکڑ
3:جسٹس محمد داؤد۔۔240ایکڑ
4:جسٹس فیض اللّہ خان۔۔240ایکڑ
5:جسٹس محمد منیر۔۔150ایکڑ
جسٹس منیرکواٹھارہ ہزاری بیراج پربھی زمین الاٹ کی گئی۔اسکے علاوہ ان پرنوازشات رھیں۔
ایوب خان نے جن پولیس افسران میں زمینیں تقسیم کیں:
1:ملک عطامحمدخان ڈی-آئی-جی 150ایکڑ
2:نجف خان ڈی-آئی-جی۔۔240ایکڑ
3:اللّہ نوازترین۔۔240ایکڑ
نجف خان لیاقت علی قتل کیس کیکردارتھے۔قاتل سیداکبرکوگولی انہوں نے ماری تھی۔
اللّہ نوازفاطمہ جناح قتل کیس کی تفتیش کرتے رھے۔
1982میں حکومت پاکستان نیکیٹل فارمنگ سکیم شروع کی۔اسکا مقصد چھوٹے کاشتکاروں کو بھیڑبکریاں پالنے کیلئے زمین الاٹ کرنی تھی۔مگراس سکیم میں گورنرسندھ جنرل صادق عباسی نے سندھ کے جنگلات کی قیمتی زمین240روپے ایکڑکے حساب سے مفت بانٹی۔
اس عرصے میں فوج نیکوٹری،سیھون،ٹھٹھہ،مکلی میں 25لاکھ ایکڑزمین خریدی۔
1993میں حکومت نے بہاولپور میں 33866ایکڑزمین فوج کے حوالیکی۔
جون2015میں حکومت سندھ نے جنگلات کی9600ایکڑ قیمتی زمین فوج کے حوالیکی۔24جون2009کوریونیوبورڈ پنجاب کی رپورٹ کیمطابق 62% لیزکی زمین صرف 56 اعلی عسکری افسران میں بانٹی گئی۔
جبکہ انکاحصہ صرف10% تھا۔شایدیہ خبرکہیں شائع نہیں ہوئی۔
2003میں تحصیل صادق آباد کے علاقے نوازآباد کی2500ایکڑ زمین فوج کے حوالیکی گئی۔یہ زمین مقامی مالکان کی مرضی کے بغیردی گئی۔جس پرسپریم کورٹ میں مقدمہ بھی ہوا۔
اسی طرح پاک نیوی نے کیماڑی ٹاؤن میں واقع مبارک گاؤں کی زمین پرٹریننگ کیمپ کے نام پرحاصل کی۔اس کاکیس چلتارہا۔اب یہ نیول کینٹ کاحصہ ہے۔
2003میں اوکاڑہ فارم کیس شروع ہوا۔
اوکاڑہ فارم کی16627ایکڑ زمین حکومت پنجاب کی ملکیت تھی۔یہ لیزکی جگہ تھی۔1947میں لیزختم ہوئی۔حکومت پنجاب نے اسے کاشتکاروں میں زرعی مقاصدسے تقسیم کیا۔ 2003میں اس پرفوج نے اپناحق ظاھرکیا۔
اسوقت کیڈی۔جیISPRشوکت سلطان کے بقول فوج اپنی ضروریات کیلئے جگہ لے سکتی ہے۔
2003میں سینیٹ میں رپورٹ پیش کی گئی۔جسکے مطابق فوج ملک میں 27ہاؤسنگ سکیمزچلارہی ہے۔
اسی عرصے میں 16ایکڑکے 130پلاٹ افسران میں تقسیم کئے گئے۔
فوج کے پاس موجود زمین کی تفصیل:
لاھور۔۔12ہزارایکڑ
کراچی۔۔12ہزارایکڑ
اٹک۔۔3000ایکڑ
ٹیکسلا۔۔2500ایکڑ
پشاور۔۔4000ایکڑ
کوئٹہ۔۔2500ایکڑ
اسکی قیمت 300بلین روپے ہے۔
2009میں قومی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا۔
بہاولپورمیں سرحدی علاقے کی زمین380روپے ایکڑکے حساب سے جنرلزمیں تقسیم کی گئی۔جنرل سے لیکرکرنل صاحبان تک کل100افسران تھے۔
چندنام یہ ہیں:
پرویزمشرف،جنرل زبیر،جنرل ارشادحسین،جنرل ضرار،جنرل زوالفقارعلی،جنرل سلیم حیدر،جنرل خالدمقبول،ایڈمرل منصورالحق۔
مختلف اعدادوشمارکیمطابق فوج کے پاس ایک کروڑبیس لاکھ ایکڑزمین ہے۔جوملک کے کل رقبے کا12%ہے۔
سترلاکھ ایکڑکی قیمت700ارب روپے ہے۔
ایک لاکھ ایکڑکمرشل مقاصدکیلئے استعمال ہورہی ہے۔

( تحریر پہلے سنگر میں شایع ہو چکی ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *