Main Menu

رات کے مسافر، تحرير: ممتاز احمد آرزو

Spread the love


بنیاد کی زمین بیٹھ گئی ہے۔ مگر اب تک ہم کہانیوں کی چھتوں پر چڑھے پھیکی دوپہر کی اجڑی گلیوں کی ٹوٹی اینٹوں کی چوڑی درازوں کو زندگی سمجھ رہے ہیں ۔ بہت کچھ ہوگیا دیکھا سنا سمجھا اور محسوس کیا سب دیکھنے اور سنیں کے بعد یہ محسوس ہوا کہ وہ کہانیاں جنکو ہم جیسے لاکھوں نے اپنی بنیاد بنا رکھا تھا سچ نہ تھی۔
حقیقت بالکل اس سے مختلف تھی ان ساری کہانیوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ وہ سپاہ جس نے آنا تھا تم جسکی آس لگائے بیٹھے تھے اس نے اپنے ارادے بدل ڈالے ۔ معلوم ہوا وہ خود آزاد نہ تھے ۔ تو بھلا وہ تمھیں کیسے آزادی دلا سکتے تھے جو خود آزادی کے مفہوم معنی سے نا آشنائے محض ہیں ؟؟
تماری ایک نسل کہانی کے سچ اور چھوٹ کو تلاش کرتے کرتے انجام ہوئی۔ صدی کے آخری سرے پے معلوم کی طرف پہلا سفر ہوا لیکن سپاہ والوں کی زمین بھی پاوں کے نیچے سے سرکنے لگی انکے پاوں بھی ڈولنے لگے۔
غلاموں کی آزاد پالیسیاں نہیں ہوا کرتی صاحب ۔ آپ جسکی تلاش میں ہو ،وہ یہ نہیں ہیں !! یہ تو بچارے خود اپنی تلاش میں ہیں بھلا تجھے تیرے گھر کا راستہ کیسے بتا سکیں گے؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *