Main Menu

چيئرمين پيپلز نيشنل الاہنس کا عوام کے نام پيغام، فروغ نسيم کو مناظرے کا بھی چيلنج

Spread the love

پیارے ہموطنو! ھمیں تو پچھلے 73 سالہ پڑوسی ملک پاکستان کے حکمرانوں، بالادست طاقتوں کی جموں کشمیر بارے پالیسی کا بھی بخوبی علم ہے اور 22 اکتوبر 1947 سے لیکر تاحال جو جو کشمیری عوام کے جذبات کا کھلواڑ کیا گیا۔ ھمارے قدرتی و معدنی اور افرادی وسائل کا بیدردی سے استحصال کیا گیا۔ جموں کشمیر کو غلام رکھنے کیلئے کیا کیا سازشوں کے تانے بانے بنے گئے۔ معصوم و نہتے کشمیریوں کا قتل عام کروایا گیا ہر ایک عمل کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ پی این اے کی لیڈرشپ بارہا اس حقیقت کا اظہار کر چکی ھیکہ دہلی و اسلام آباد کا آپسی ہزار معاملات پر اختلاف سہی لیکن جموں کشمیر کے عوام کو تقسیم و غلام رکھنے پر دونوں قابض قوتوں کا مکمل اتفاق ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارت کیساتھ محبت و الحاق کا دم بھرنے والی دہلی نواز سیاسی مفاد پرست و بونے سیاستدانوں کی 5 اگست 2019 کے دہلی حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس سے خاصی حد تک آنکھیں کھل چکی ہیں کیونکہ بھارت کے آئین کے ارٹیکل 370 میں 35 A کے تحت جموں کشمیر کو جو اھم و الگ تھلگ حیثیت حاصل تھی جسکے گھمنڈ و تکبر کے گمان میں وہ دھواں دار تقاریر اور بلند و بانگ دعوے کیا کرتے تھے وہ انکے آقا نامدار نے یک جنبش قلمُ پوری ریاست کو براہ راست دہلی کے ماتحت کر ڈالا اور جس غلام نے بھی ذرا برابر چوں چرا کی وہ آج 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی یا تو مختلف جیلوں میں بند ہیں یا پھر اپنے ہی گھر میں دہلی سرکار کے مفادات کا تحفظ کرنے کے صلہ میں اور کرونا کے لاک ڈاؤن کی اڑ میں دوھرا مزا لینے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ مظفرآباد کے وظیفہ خور۔ دلال۔ کاسئہ لیس ڈیڑھ ضلع کے بے اختیار و بے بس و بے کس حکمرانوں کیلئے نوشتہ دیوار ہے کاش پڑھ پائیں۔ اب تو 14 ترمیم کے مسودہ میں بلی مکمل تھیلا سے باہر آ گئی ہے۔ اگرچہ 22 اکتوبر 1947 کے انسانیت کو بدترین سازشی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے لہولہان کرنے اور جموں کشمیر کو تقسیم کرنے کے گھناونے عمل سے لیکر 28 اپریل 1949 کے معاہدہ کراچی۔ کشمیری عوام کے مکمل آزادی حق کو سلب کرنے اور اسے محض اپنے ہی نہیں بلکہ بھارت کیساتھ الحاق سے بھی مشروط کر دیا۔ UN Commission for Jammu Kashmir کا نام تبدیل کروا کر بھارت کیساتھ ملی بھگت سے اسکا نام UN Commission for India and Pakistan رکھوایا۔ جموں کشمیر کے دریاؤں کی نسبت سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے بھارت کے قبضہ کو قانونی و جائز حیثیت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ تاشقند معاہدہ کیا۔ شملہ معاہدہ۔ لاہور و آگرہ میں مختلف اوقات میں ہونے والے معاہدوں میں شملہ معاہدہ ہی کی توثیق کی گئی تھی۔ آپکے بڑے بھائی و خود ساختہ وکیل نے ہر دور میں دہلی سرکار کو جموں کشمیر پر اپنا قبضہ مزید مستحکم کرنے کے راستوں سے آشنا کروایا ہے۔ اور مستقبل اپ کا بھی وہی ہے جو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آج دہلی کے وفاداروں کا ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ قوموں کے عروج و زوال۔ غلامی و آزادی اور آقا و غلام کے رشتوں۔ رویوں۔ جبرو بربریت۔ تشدد و قتل عام سے بھری پڑی ہے پھر بھی آج کا باشعور۔ صاحب علم۔ با ضمیر۔ کردار۔ اصولوں۔ نظریات کا حامل اور آزادی پسند انسان بھی شعوری طور پر غلامی کی ان بد بخت زنجیروں کی عبادت کرنے اور انہیں پوجنے کا ہی متمنی ہے۔ نہ جانے تاریخ کس دوراہئے پر کھڑی ہے۔ دہلی و اسلام آباد کے عارضی و وقتی حکمرانو۔ آپکے تمام تر معاہدوں۔ آرڈیننس۔ شیڈولز۔ ھمیں غلام رکھنے کیلئے قائم کیئے گئے سازشی ایکٹ و قوانین۔ ھماری آزادی و حقوق پر لگائی گئی پابندیاں و قد غن کو ھم جوتے کی نوک پر سمجھتے ہیں۔یاد رہے کہ بھارت کے آزاد ہونے اور پاکستان کے بننے سے قبل بھی جموں کشمیر ایک آ آزاد ریاست تھی جسے اپ دونوں کے آئینز بھی تسلیم کرتے ہیں اس مسلئہ کو عالمی برادری بھی 73 سالوں سے تسلیم کر رہی ہے۔ دہلی و اسلام آباد کے عارضی حکمران آرڈیننس جاری کر کے۔ ایکٹ بنا کرھمارے قومی آزادی کے مسلئہ سے بینالاقوامی طور پر فرار نہیں پا سکتے ہیں۔ ساتھیو۔ گبھرانا نہیں۔ ڈرنا ہر گز نہیں۔ بکنا تو سرے سے ہی نہیں۔ فکری مغالطوں میں بھی پڑنے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ ذرا برابر ابہام کو اپنے نزدیک تک پھٹکنے نہ دیں۔ کیونکہ تاریخ شاہد ھیکہ جموں کشمیر 84471 مربع میل پر پھیلا ہوا ھمارا خوبصورت وطن۔ دو کروڑ انسانوں پر مشتمل جسکی مسلمہ تاریخ ہے تہذیب و تمدن ہے۔ وسائل سے مالہ مال ہے اسلیئے اگر دیگر قوموں کو اپنی آزادی عزیز ہے تو انکو ببانگ دہل پیغام ھیکہ ھمیں اپنی آزادی عزیز ترین ہے۔ دونوں ممالک جموں کشمیر پر ناجائز قابض ہیں جس کا خمیازہ نہ صرف جموں کشمیر کے عوام بھگت رہے ہیں بلکہ بھارت و پاکستان کے عوام ھم سے بھی زیادہ بھگتنے پر مجبور ہیں اور مستقبل قریب میں نہ جانیں مسلئہ کشمیر کی بدولت جنوبی ایشیا میں انسانیت کا کتنا قتل عام ہو گا اورسامراجی طاقتوں کا تیار کردہ نقشہ کس طرز و شکل کا ہو گا۔ میں پی این اے کے چیرمئین کی حیثیت سے مظفرآباد کے حکمرانوں اور انکے آقا اسلام آباد کے حکمرانوں کو بروقت متنبہ کرتا ہوں کہ ھم پہلے ہی سے ایکٹ 1974 کو غلامی کی دستاویز سمجھتے ہیں اور اسے ایک آقا کا حکم تصور کرتے ہیں جسکی تعمیل کسی بھی صورت ناممکن ہے چاجائیکہ اپ اسکا مزید نین و نقشہ بگاڑ کر ھم پر مسلط کرو۔ ھم ایک بار نہیں بلکہ قبضہ کو مزید مستحکم کرنے کی خاطر طرع طرع کے ایکٹ۔ دہلی آرڈیننس کو سرے سے مسترد کرتے ہیں یہ سب کچھ دہلی و اسلام آباد کے حکمرانوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ ایک پیغام میں بحیثیت ایڈووکیٹ سپریم کورٹ فروغ نسیم وزیرقانون صاحب کو بھی دینا چاہتا ہوں اور مناظرہ کا بھی چیلنج کرتا ہوں یہ ان پر ھیکہ وہ مظفرآباد میں رکھیں یا اسلام آباد و کراچی میں کہ جناب بیرسٹر ایٹ لا جو ہوتا ہے وہ انٹرنیشنل لا پر ڈگری حاصل کرتا ہے اور انٹرنیشنل لا میں UN کا چارٹر قوموں کی آزادی کے اصول، قوم کے لوازمات دیگر تمام تر قواعد و ضوابط کی تشریحات موجود ہیں ۔لیکن اپ نے ان تمام کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک قوم کی آزادی کے مسلئہ کو بر سرعام صلیب پر چڑھاتے ہوئے اپنی نوکری پکی کی۔ آپکی وکالت ،بار ایٹ لا، سیاست، کردار پر سو بار نہیں بلکہ ہزار بار لعنت۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *