Main Menu

سردار ابراہیم خان کا سعید اسدکو ایک آف دی ریکارڈ انٹرویو

Spread the love


میری مرتب کردہ کتاب ’’شعورِ فردا‘‘ گذشتہ چند روز سے شائع ہو کر میرے ہاتھ لگ چکی تھی۔اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر مجھے بے پناہ خوشی اور اطمینان حاصل ہوا۔مظفرآباد میں چند ساتھیوں نے اس کتاب کی تعارفی تقریب منعقد کروانے کے حوالے سے مشورہ کیا لیکن ہم کسی متفقہ رائے پر نہ پہنچ سکے۔ ایک روز میں کتاب ہاتھ میں لیے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرکزی وائس چیرمین راجہ مظفرصاحب کے ہاں لوئر پلیٹ چلا گیا۔ان سے کتاب کی تقریب رونمائی کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اپنے نظریاتی کیمپ سے کسی مہمانِ خصوصی کو بلانے کے بجائے کیوں نہ صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان صاحب کو دعوت دی جائے۔ راجہ صاحب فرمانے لگے’’ وہ بزرگ سیاستدان ہیں زیرک آدمی ہیں اور کشمیر کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں ان کے مشاہدات بھی بڑے گہرے ہیں اگرچہ وہ ہمارے اعلانیہ طور پر حمایتی نہیں ہیں لیکن دل سے وہ بھی خودمختار کشمیر کے حامی ہیں لہذا میرا مشورہ ہے کہ یہاں مظفرآباد میں تقریب رونمائی کا اہتمام کرتے ہیں اور سردار صاحب کو مہمانِ خصوصی بلاتے ہیں۔‘‘
راجہ صاحب کے دلائل سن کر میں نیان سے سوال کیا ’’اس سے ہمارے اپنے نظریے کے حمایتی لوگ ناراض تو نہیں ہوں گے ‘‘وہ کہنے لگے’’ نہیں ہم اپنے جماعتی اور نظریاتی لوگوں کو بھی بات کرنے کا موقع دیں گیلیکن سردار صاحب بھی مقبول بٹ شہید کے حوالے سے کوئی نامناسب یا مخالفانہ بات نہیں کریں گے اس لیے میرا خیال ہے کہ انھیں بلانے میںکوئی حرج نہیں‘‘۔
’’جیہڑا بولے اوہیا کْنڈی کھولے‘‘ میں نے ان کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ صدرآزاد کشمیر سے میری علیک سلیک اس نوعیت کی نہیں کہ میں انھیں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دوں لہذا مناسب ہوگا کہ آپ ان سے بات کریں اور انھیں دعوت دیں‘‘۔
راجہ مظفرصاحب چونکہ سردار صاحب سے اچھی شناسائی رکھتے تھے۔ انھوں نے حامی بھر لی کہ وہ صدر آزاد کشمیر کو یہ کتاب پہنچائیں گے اور انھیں بحیثیت مہمان خصوصی تقریب میں شرکت کی دعوت دیں گے۔
چنانچہ میں نے صدرآزاد کشمیر کے لیے ایک کتاب ان کے حولے کی اور توقع ظاہر کی کہ وہ صدر آزاد کشمیر کو اس تقریب میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
راجہ صاحب نے اپنے ذرائع سے وہ کتاب اسی روز صدر صاحب تک پہنچا دی اور ساتھ ہی ان سے استدعا کی کہ وہ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت فرمائیں اور کسی مناسب تاریخ کا تعین فرمائیں تاکہ پروگرام کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے۔
اگلے روز میں اپنے دفتر سے اٹھنے ہی والا تھا کیونکہ چھٹی کا وقت ہونے کو تھا کہ دفتر میں مجھے راجہ مظفر صاحب کا فون موصول ہوا کہ میں ان کا انتظار کروں کیونکہ آج ہمیں صدر صاحب نے اپنے صدارتی سیکرٹریٹ میں ملاقات کے لیے بلا یاہے۔ میں اپنے دفتر لوکل گورنمنٹ سیکرٹریٹ میں ہی راجہ صاحب کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ جوکہ صدارتی سیکرٹریٹ سے ملحقہ اولڈ سیکرٹریٹ میں ایک دوسری عمارت میں واقع تھا۔
پرانا سیکرٹریٹ سائیں سہیلی سرکار کے شمال میں اس جگہ واقع تھا جہاں آج ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی عالی شان عمارات کھڑی ہیں۔ 8 اکتوبر2005ء کے زلزلہ سے پہلے اس سیکرٹریٹ میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ میں سب سے نمایاں جگہ پر صدارتی سیکرٹریٹ تھا۔اس کیبائیں ہاتھ محتسب سیکرٹریٹ واقع تھا جس کے عقب میں لوکل گورنمنٹ سیکرٹریٹ ، الیکش کمیشن،پبلک سروس کمیشن، تجوید القرآن ٹرسٹ اور دیگر کئی محکمہ جات کے دفاتر واقع تھے۔اس سارے احاطہ کی کچھ عمارات تو 1947ء سے پہلے کی تعمیر کردہ تھیں اور کچھ عمارات 1947ء کے بعد تعمیر کی گئی تھیں۔ سیکرٹریٹ کے صحن میں مین روڈ کی طرف چنار کے بلند وبالا خوبصورت تناور درخت کھڑے تھے جو اس پورے سیکرٹریٹ کے ماحول پر سایہ فگن رہتے تھے۔چاروں طرف عمارات کیدرمیان میں خوبصورت زینہ نما سرسبز لان تھا جس میں سرو کے طویل قامت پودے ایستادہ تھے۔مالی حضرات باقاعدہ ان پودوں کی تراش خراش کرتے رہتے اور کیاریوں میں رنگ برنگ پھول اگاتے۔جب یہ پھول کھل اٹھتے اور سرو کی کونپلیں پھوٹتیں تو سیکرٹریٹ کا ماحول رشکِ چمن بن جاتا۔پھولوں اور کونپلوں سے اٹھتی ہوئی مہک روح کو تروتازگی بخشتی۔
اس سیکرٹریٹ میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ صدارتی آفس تھا۔ جس میں سب سے پہلے استقبالیہ اور اس سے ملحقہ صدارتی عملے کے دفاتر تھے اور ایک بڑا سا کمرہ صدر صاحب کا دفتر تھا۔ روایتی انداز میں بڑے اچھے طرز پر یہ عمارت تعمیر کی گئی تھی۔آج 23 مئی 1998ء کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی۔ دن کے دو بج رہے تھے میں اپنے دفتر میں بیٹھا راجہ مظفر صاحب کا انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دفتر میں تشریف لائے اور فرمانیلگے ’’آئیں جی چلیں صدر صاحب سے ملاقات کا وقت ہو گیا ہے۔ سردار صاحب وقت کے بہت پابند ہیں ہم کہیں لیٹ نہ ہو جائیں‘‘۔
دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے انھوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بڑی گرم جوشی سے مجھے بتایا کہ صدر صاحب کو میں نے کتاب بھیجی تھی ساتھ ہی رقعہ بھی ارسال کیا تھا جس کے جواب میں آج انھوں نے دو بجے ملاقات کے لیے بلا یا ہے۔
مین نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا ’’جناب دو بج رہے ہیں یہ تو دفاتر میں چھٹی کا ٹائم ہے شاید انھوں نے دو چار منٹ کی ملاقات کے لیے ہی بلایا ہو‘‘۔خیر اسی تذبذب میں ہم صدارتی سیکرٹریٹ میں داخل ہوئے تو عملے کا ایک ممبر جسے ہماری آمد کا پہلے سے علم تھااْس نے ہمیں ویلکم کہا اور سیدھا صدر صاحب کے آفس میں یہ کہتے ہوئے ہمیں لے کرداخل ہوا کہ راجہ صاحب آئیے صدر صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہم اندر داخل ہوئے صدر صاحب واقعی ہمارے منتظر تھے۔ہمیں اپنی نشست سے اٹھ کر بڑے تپاک اور گرم جوشی سے گلے لگا کر ملے اور اپنے سامنے والے بڑے میز کے ساتھ لگی دو کرسیوں پر بیٹھنے کااشارہ کیا۔
علیک سلیک اور خیر خریت دریافت کرنے کے بعد میری طرف اشارہ کر کے پوچھنے لگے یہ کون ہیں ؟
راجہ صاحب نے بتایا کہ یہ نوجوان محمد سعید اسعد ہے، جس کی مرتب کردہ کتاب شعورِ فردا کل میں نے آپ تک پہنچائی تھی اور آپ نے ہم دونوں کو بلایا ہے۔
یہ سن کر صدر صاحب مسکرائے اور اپنے سامنے میز پر رکھی ہوئی میری کتاب ’’شعور فردا‘‘ ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمانے لگے:
’’آپ نے بہت اچھی کاوش کی ہے، مقبول بٹ کے خطوط جمع کیے ہیں میں نے جستہ جستہ اسے دیکھا ہے‘‘۔
مجھے پوچھنے لگے’’ آپ کو یہ شوق کیسے ہوا‘‘؟
میں نے بتایا کہ جناب میں نے پنجاب یونی ورسٹی شعبہ کشمیریات سے ماسٹر ڈگری مکمل کر رکھی ہے اور کشمیر سٹڈیز کا طالب علم ہوتے ہوئے میں نے چند دیگر کتب بھی لکھی ہیں۔
میں صدر صاحب کے لیے اپنی ایک اور کتاب ’’کشمیر قائد اعظم اور کے ایچ خورشید‘‘ بھی ہمراہ لایا تھا۔ میں نے اس موقع پر انھیں یہ کتاب بھی پیش کی تو اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مجھے ان دونوں موضوعات کے چنائو پر شاباش دی۔
انھوں نے اپنا روئے سخن راجہ مظفر صاحب کی طرف پھیرا اور فرمانے لگے۔
’’راجہ صاحب آپ جلدی میں تو نہیں ہیں‘‘۔
تو راجہ صاحب نے جواب دیا ’’نہیں سر ہمیں کوئی جلدی نہیں‘‘۔
اچھا اگر جلدی نہیں تو پھر میرے پاس اطمینان سے بیٹھیں آپ کے ساتھ یہ نوجوان بھی ہے جو مجھیکسی کام کا لگتا ہے۔عموماً میرے پاس جونوجوان آتے ہیں وہ درخواستیں لے کر آتے ہیں ، نوکری ملازمت یا مالی امداد کے لیے اس طرح کے لکھنے والے نوجوان کم ہی آتے ہیں۔
راجہ صاحب نے انھیں بتایا کہ اس نوجوان کی چند دیگر کتب بھی شائع ہوئی ہیں جنھیں عوام نے پذیرائی بخشی ہے۔ راجہ صاحب نے انہیں کتابوں کے نام بھی بتائے تو ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور فرمانے لگے ’’اب تو میں آپ کو جلدی نہیں جانے دوں گا (ہنستے ہوئے)‘‘۔
میری طرف دیکھ کر فرمانے لگے’’ سعید اسعد میرے پاس بھی کئی کتابوں کا مواد ہے لیکن میں نے اب لکھنا چھوڑ دیا ہے۔اب یہ آپ نوجوانوں کا کام ہے کہ کشمیر کے حوالے سے آپ کتابیں لکھیں‘‘۔
یہ فرماتے ہوئے انھوں نے اپنا ہاتھ گھنٹی کی طرف بڑھایا۔ گھنٹی بجی تو ایک ملازم اند داخل ہوا۔ وہ جب احکامات سننے کے لیے ان کے قریب آیا تو اسے کہنے لگے چھٹی کا ٹائم ہو گیا ہے سٹاف کو بتائیں چھٹی کر جائیں۔آپ ادھر موجود رہیں گے اور ڈرائیور بھی باقی لوگ چھٹی کر سکتے ہیں۔ جب وہ ملازم احکامات موصول کر کیجانے لگا تو اسے دوبارہ مخاطب ہو کر بولے ’’ہاں بات سنو ! ایک گھنٹہ کے بعد مہمانوں کے لیے چائے تیار کر کے لانا، ساتھ کچھ کھانے کے لیے بھی ، ہاں چائے دینے آئو تو دروازہ کھٹکھٹا کر آنا۔ میں دیر تک بیٹھوں گا اور ان مہمانوں سے گپ سپ کروں گا باقی دفتر والوں کو بھیج دیں‘‘۔
یہ احکامات لے کر ملازم باہر نکلا تو صدر صاحب مجھے فرمانے لگے’’ بیٹا اٹھ کر دروزے کو اندر سے کنڈی لگا دو‘‘۔
مجھے کچھ حیرانگی اور قدرِ جھجھک محسوس ہوئی کہ ہم صدر صاحب سے ملاقات کرنے آئے ہیں اور یہ اندر سے دروازے کو کنڈی لگوا کر نہ جانے کیا کریں گے۔ اسی شش وپنج میں میں اٹھا اورملازم کے باہر نکلتے ہی دروازے کو اندر سے کنڈی لگادی اورواپس آکر اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔
ماحول میں یک لخت ایک خاموشی سی اور پْر اسراریت چھا گئی۔جب میں واپس آکر نشست پر بیٹھ گیا تو سردار صاحب مسکراتے ہوئے گویا ہوئے۔
میں نے کنڈی اس لیے لگوائی ہے کہ آج آپ دونوں جس مقصد کے لیے میرے پاس آئے ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ میں کچھ باتیں کھل کر آپ سے کروں۔ کیونکہ یہ باتیں میں آپ سے اس بند کمرے میں ہی کر سکتا ہوں باہر نہیں کر سکتا۔ ہنستے ہوئے فرمانے لگے اللہ کی قسم میں آج آپ سے جو باتیں کروں گا یہ سب سچ ہوں گی۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔جو باتیں میں کروں کا یہ آف دی ریکارڈ ہوں گی۔ آپ نے باہر جا کر کسی کو نہیں بتانا کہ ابراھیم خاں نے آپ سے کیا باتیں کی ہیں۔ میری طرف مخاطب ہوتے ہوئے فرمانے لگے ’’بیٹا وعدہ کرو کسی کو بتائو گے نہیں کہ میں نے آپ سے کیا باتیں کی ہیں‘‘۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ سر میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی کو نہیں بتائوں گا۔
کہنے لگے راجہ صاحب آپ بھی وعدہ کرو۔
راجہ صاحب بھی بولے’’ سر آپ بتائیں ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم کسی سے اس کا اظہار نہیں کریں گے‘‘۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگے’’ کچھ باتیں ہوتی ہیں جو اصلی سچ ہوتا ہے لیکن ہم انھیں آن دی ریکارڈ نہیں لا سکتے کیونکہ وہ آف دی ریکارڈ ہوتی ہیں۔چنانچہ میری آج کی باتیں بھی آف دی ریکارڈ ہوں گی میں نے پوچھا ’’سر آپ جو سچی اور حقیقی باتیں ہمیں بتائیں گے وہ ہم کبھی بھی لکھ نہیں سکیں گے یادوسروں کو بتا نہیں سکیں گے‘‘؟
فرمانے لگے’’ نہیں میری زندگی میں کسی کو نہیں بتانی میں تو اب موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ اب کتنا عرصہ اور جیووں گا۔ میرے مرنے کے بعد بیشک بتا دینا اور لکھ بھی دینا لیکن میری زندگی میں اور میرے اس کرسی پر بیٹھے ہوئے کسی کو نہیں بتانا(مسکراتے ہوئے)‘‘۔
ہم دونوںنے ایک بار پھر انھیں یقین دلایا کہ ہم ان کی بتائی ہوئی باتوں کو صیغہ? راز میں رکھیں گے اوران کے جیتے جی کسی سے شیئر نہیں کریں گے۔
سردار صاحب میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے’’ آپ کتابیں لکھتے ہیں میں نے بھی کتابیں لکھی ہیں پتا ہے کون کون سے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ہاں جناب آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ میرے پاس ذاتی لائبریری میں محفوط ہیں اور میں نے پڑھی ہیں اور پھر میں نے بتایا کہ آپ نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں کشمیر ساگا،کشمیر کی جنگِ آزادی اور متاعِ زندگی شامل ہیں۔ میں نے انھیں یہ بھی بتایا کہ آپ کی کتاب کشمیر ساگا جو 1965میں لاہور سے شائع ہوئی تھی۔ وہ میرے پاس محفوظ ہے اور آپ کی دوسری کتاب متاع زندگی جو کلاسک لاہور نے شائع کی تھی وہ بھی میرے پاس محفوط ہے۔
وہ پوچھنے لگے ’’یہ متاعِ زندگی آپ کو کہاں سے ملی‘‘؟ میں نے انھیں بتایا کہ لاہور میں دوران تعلیم مجھے یہ ایک اولڈ بک سیلر سے فٹ پاتھ سے ملی اور جب میں نے اس کا ورق الٹ کر دیکھ تو اس کے اندر آپ کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا محترم دوست رانا مقبول احمد قادری صاحب کی خدمت میںتو میں نے یہ کتاب چند روپے دے کر اس سے خرید لی۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں نے تصدیق کی کہ لاہور میں رانا مقبول واقعی میرا ایک دوست تھا۔ پھر ہنستے ہوئے فرمانے لگے ’’دیکھیں میرے دوست نے میری دی ہوئی کتاب فٹ پاتھ پر برائے فروخت پھینک دی‘‘۔
ہاںہمارے معاشرے میں کتابوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نیہمیں بتایا کہ انھوں نے اپنی کتاب Kashmir Saga کا نیا اضافہ شدہ ایڈیشن ویری ناگ پبلشرز میرپور سے شائع کروایا ہے۔یہ کہہ کر انھوں نے دائیں طرف سے ٹیبل کا دراز کھولا اور اس میں سے دو کتابیں سامنے رکھتے ہوئے ایک کتاب پر راجہ مظفر صاحب کے لیے کچھ لکھ کر انھیں پیش کی اور دوسری کتاب پر میرے لیے لکھامحمد سعید اسعد کی خدمت میں۔ہم نے ان کے ہاتھ سے کتابیںوصول پا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ میں نے اپنی کتاب میں کشمیر کے مسئلے کا جو حل تجویز کیا ہے وہ بھی خود مختار کشمیر ہی ہے لیکن میں کھل کر خودمختار کشمیر کی حمایت نہیں کر سکتا۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا مسئلہ کشمیر کا خودمختار کشمیر کے سوا کوئی حل نہیں لیکن انڈیا اور پاکستان کشمیر سے اپنا قبضہ ختم نہیں کرنا چاہتے کیونکہ کشمیر سونے کی چڑیا ہے……
وہ فرمانے لگے ’’انگریز براعظیم کو سونے کی چڑیا کہتے تھیلیکن میں کہتا ہوں کہ ہمارا کشمیر سونے کی چڑیا ہے اسی لیے تو انڈیا اور پاکستان نے اس پر اپنا قبضہ قائم کر رکھا ہے اور کچھ علاقہ چین کے قبضے میں بھی ہے۔ اگر یہ ملک کسی کام کا نہ ہوتا تو یہ کب کا اسے چھوڑ چکے ہوتے لیکن اللہ نے ہمارے ملک کو اتنی نعمتیں دی ہیں کہ وہ نعمتیں ان ملکوں کے پاس نہیں ہیں۔
دیکھو ہمارے دریا کوئی ہے ان دریائون جیسا صاف شفاف تیز بہتا ہوا پانی والا دریا بھارت یا پاکستان کے پاس؟(وہ تنک کر بولے)
دیکھو ہمارا دریائے سندھ !
دیکھو دریائے جہلم ، اس دریا کہ ہائوس بوٹ میں تو میری رہائش گاہ تھی جب 1947ء� میں ہجرت کر کے سرینگر سے یہاں آیا تھا۔
دریائے نیلم دیکھو کتنا صاف و شفاف ہے ! ہاں سر دیکھا ہے بہت صاف و شفاف ہے میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔
ہمارے جنگلات ، معدنیات کہاں ہے ان ملکوں کے پاس ایسی دولت ؟
’’ہاں سر واقعی ہمارا ملک جنت ہے‘‘۔راجہ مظفر صاحب بولے۔
ہمارا ملک اگر آزاد وخودمختار ہوتاتو یہ بہت ترقی کرتاہمارے لوگ بہت ذہین اور محنتی ہیں۔جفا کش ہیں۔چالاک اور ہوشیار ہیں۔ میں یہ سب سمجھتا ہوں لیکن میں خودمختار کشمیر کی اب حمایت نہیں کر سکتا۔
آپ میرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ میں آپ کی اس کتاب کی تقریب میں شرکت کروں اور خودمختار کشمیر اور مقبول بٹ شہید کی حمایت میں تقریر کروں۔ ایسی غلطی اب میں عمر کے اس حصے میں نہیں کرسکتا۔
میں مقبول بٹ اور کے ایچ خورشید دونوں کو اچھی طرح جانتا ہوں خورشید تو ہمارا دوست تھا۔میں نے اس کا نام اس وقت سنا تھا جب وہ مسٹر جناح کے ساتھ سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ بعد ازاں ہم نے آزادکشمیر میں سیاست اکٹھیکی۔ ماریں کھائیں اور جیلوں میں بھی گئے۔لیکن وہ آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کی بات کرتا تھا۔ ہم یہ بات نہیں کرتے تھیمیں اور قیوم خان کشمیر بنیگا پاکستان کا نعرہ لگاتے تھے۔ اس نعرے کی وجہ سے ہمیں حکومتیں کرنے کا موقع ملتا رہا اور ہم حکومت پاکستان کی گڈ بْک میں رہے۔
میں اور قیوم خان کوئی زیادہ قابل یا لائق نہیں تھے۔ مقبول بٹ اور کے ایچ خورشید دونوں بہت لائق تھے۔ خوبصورت اور تعلیم یافتہ بھی تھے۔ایک تو وہ خودمختار کشمیر چاہتے تھے اس لیے حکومتِ پاکستان انھیں پسند نہیں کرتی تھی اور دوسرا آزاد کشمیر میں ان کی بڑی برادری نہیں تھی۔ میں اور قیوم خان الحاق پاکستان کی بات کرتے تھیحکومت پاکستان چاہتی بھی یہی تھی اور دوسرا ہمارے ٹبر قبیلے اور برادریاں تھیں۔ ہمارے قبیلے ہماری پشت پر تھے مقبول بٹ اور خورشید بے چارے مہاجر تھے ان کے ساتھ کوئی قبیلہ نہیں تھا۔ لیکن میں یہ بات مانتا ہوں کہ آج کی نئی نسل میرے اور قیوم خان کے نظریات کو نہیں مانتی۔ ہمارے راولاکوٹ میں تو مقبول بٹ کے خود مختار کشمیر کو ماننے والے نوجوان زیادہ ہیں۔
وہ لہجہ بدلتے ہوئے بولے’’ کشمیر کی آزادی اور سارے کشمیر کی سیاست صرف خورشید اور مقبول بٹ نے ہی کی ہے۔خورشید تو بہت خوبصورت اور ذہین تھا وہ میرے اور قیوم خان دونوں سے لائق تھا لیکن بے چارہ سیاست میں کچھ نہیں بنا سکا۔اس کے بیوی بچے آج بھی لاہور میں کرائے کے مکان میں رہتے ہیں(ہائے)۔
دیکھیں قیوم خان اور اس کے بیٹے نے کتنی دولت جمع کر رکھی ہے یہ سب اس نے اقتدار میں آکر بنایا ہے۔ پہلے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔وہ ملیشیا پہنے بھوکا ننگا پھرتا تھا بے چارہ۔
آپ میرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ میں آپ کی تقریب میں آکر خود مختار کشمیر کا لیبل لگوائوں اپنے اوپر۔ آپ تو خوش ہوں گے لیکن پتا ہے قیوم خان کیا بیان دے گا اور دوسرے دن اخبارات میں ہیڈ لائن لگی ہو گی۔
ابراہیم خان نمک حرام ہو گیا۔
ابراہیم خان خودمختاریہ بن گیا۔
ابراہیم خان انڈیا کا ایجنٹ ہو گیا۔
ابراہیم خان سی آئی اے کا ایجنٹ بن گیا۔
بیٹا !اب میں عمر کے اس حصیمیں اپنے آپ کو خراب نہیں کر سکتا اور نہ یہ الزام اور طعنہ سن سکتا ہوں۔ میں نے تو الحاق پاکستان کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اب اگر میں آپ کی حمایت کرتاہوں تو آپ لوگ تو خوش ہو ںگے لیکن قیوم خان مجھے نہیں چھوڑے گا۔ پھر اسے موقع ہاتھ آجائے گا۔وہ میرے خلاف عوام کو سڑکوں پر لے آئے گا۔
قیوم خان اور مجھے بھی پتا ہے کہ الحاق پاکستان کے نعرے میں کوئی جان باقی نہیں رہ گء لیکن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یہی نعرہ سننا چاہتی ہے‘‘۔
(میری طرف مخاطب ہو کر)’’ لیکن بیٹا آپ کو میری نصحیت ہے کہ آپ جس راستے پر چل رہے ہیں یہی صحیح راستہ ہے۔ مستقبل میں جب بھی کشمیر کا مسئلہ حل ہوا خود مختار کشمیر ہی ہوگا۔پاکستان یا ہندوستان کا حصہ نہیں بنے گا۔ میرا اور قیوم خان کا دور اب گزر گیا ہے۔ اب خود مختار کشمیر کی بات چلے گی اور راجہ مظفر اور اس کے امان اللہ خان کی بات سنی جائے گی۔
سیاست بڑی ظالم چیز ہے۔ہم مجبور اور بے بس ہیں۔ یہ آزاد کشمیر کی حکومت وزارتِ امور کشمیر اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے ہمارا کوئی اختیار اور اقتدار نہیں ہے۔(ہنستے ہوئے)
اللہ کی قسم اگر دنیا میں کوئی بے اختیارا صدر دیکھنا ہو تو کوئی آکر مجھے دیکھ لے۔دنیا میں مجھ سے بے اختیارا صدر کوئی نہیں ہے۔ میں محمد ابراہیم خان لکھ کر دستخط کرتا ہوں اور اس کی مجھے تنخواہ ملتی ہے۔ میں برائے نام صدر ہوں۔ میرے پاس کوئی اختیار کوئی اقتدار اور کوئی ریاست نہیں ہے۔فائلیں اور مسودات سلطان محمود میرے پاس بھیج دیتا ہے اور میں دستخط کر دیتا ہوں۔ کیا کروں مجبور ہوں دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ اس کرسی پر جو بیٹھا ہوں۔ نہ کروں تو یہ کرسی جاتی ہے۔ کرسی کے لیے ہی تو ساری زندگی لڑائیاں کی ہیں اب اس کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔
دیکھو یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے کہ میں 50 سال پہلے بھی اس آزاد کشمیر حکومت کا صدر بنا تھا اور اب 50 سال گزرنے کے بعد پھر چوتھی مرتبہ صدر بنا ہوں۔ یہ دنیا کا واحد ریکارڈ ہے۔
قیوم خان تو آج بھی یہ چاہتا ہے کہ اسے میرے خلاف پروپگنڈہ کرنے کا موقع ملے اور وہ اپنی نوکری پکی کر کے میری چھٹی کروا دے۔ لیکن میں اتنا انجان اور نادان نہیں ہوں کہ اس کے لیے میدان کھلا چھوڑدوں۔ اس کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حکومت پاکستان کی اور اس کی ایجنسیوں کی ناراضگی مول نہ لے اور میری بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ چھوٹی موٹی باتوں پر ناراضگی تو ہوتی رہتی ہے لیکن ہم ان کی وفاداری کے حلف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ یہ اقتدار کی جو کرسی ہوتی ہے اس کا اپنا مزہ ہوتا ہے(مجھے مخاطب کرتے ہوئے)۔آپ ابھی چھوٹے ہو آپ کو نہیں پتہ یہ کرسی کیا چیز ہے (مسکراتے ہوئے) یہ بے اختیاری ہو تب بھی مزہ دیتی ہے۔ اللہ کی قسم میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میں مرتے دم تک اس کرسی پر بیٹھا رہوں اور ملک الموت آئے تو اسی کرسی پر میری جان نکالے (قہقہے)۔
میں اور قیوم خان چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد ہماری نسل یہ کرسی سنبھالے۔ میرے بعد میرا بیٹا خالد اس کرسی پر بیٹھے۔ قیوم خان کی بھی یہی کوشش ہے کہ اس کے بعد عتیق اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔’’عثمان عتیق‘‘(راجہ مظفر بولے)۔
ہماری سیاست یہی کرسی ہے۔ کشمیر کے اس طرف شیخ عبداللہ کی سیاست بھی کرسی کے لیے تھی وہ بھی پورے کشمیر کی سیاست نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ صرف وادی کشمیر کو کشمیر کہتا تھا۔ ہمیں کہتا تھا یہ پہاڑئیے ہیں، گجر ہیں ، سدھن ہیں یہ کشمیری نہیں ہیں۔ اْس کی سیاست بھی سرینگر کی کرسی کے لیے تھی اس نے بھی اپنی نسل کے لیے سیاسی راہ ہموار کی اور آج اس کا پوتا عمر عبداللہ کشمیر کا وزیراعلیٰ ہے۔ قیوم خان میری اور شیخ عبداللہ کی سیاست سارے کشمیر کے لیینہیں تھی۔اس کرسی کے لیے تھی(کرسی پر ہاتھ مارتے ہوئے)۔
کشمیر کے لیے اگر کسی نے سیاست کی ہے تو صرف دو لوگوں نے کی ہے۔ ایک کے ایچ خورشید اور دوسرا مقبول بٹ۔ ایک کو بھارت نے تہاڑ جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا اور دوسرے کو پاکستان کے ایک چوک میں گجرانوالہ کے مقام پر ایک ایکسی ڈنٹ میں مار دیا گیا۔ پاکستان اور ہندوستان کو ان دونوں سے خطرہ تھا کہ کہیں یہ کشمیر کو آزاد اور خود مختار نہ بنا لیں۔ سرینگر اور مظفرآباد کی کرسی پربیٹھے ہوئے ہم جیسے لوگوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں۔ ہم تو ان کے کہنے پر چلتے ہیں۔ قیوم خان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کی گوڈ بْک میں رہے اور میری کوشش بھی یہی رہی ہے کہ میں ان کی گوڈ بْک میں رہوں لیکن اب تو ہماری بھی ضرورت نہیں رہی (قہقہے لگاتے ہوئے)۔ کیونکہ ہم نیتو صرف ان کی ہاں میں ہاں ملاناسیکھا تھا اور کبھی کبھار چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلاف بھی کر لیتے تھے، اب تو سجدے کرنے والے آگئے ہیں۔ہاں راجہ مظفر خان !بتائو سجدے کرنے والوں کے ہوتے ہوئے ہماری کیا ضرورت ہے۔ ہم نے سجدہ کرنا تو نہیں سیکھا تھا۔ نئے آنے والوں نے تو حد کر دی ہے۔ اب ہمیں کون پوچھے گا(قہقہے)۔
ج : میں معاہدہ کراچی کے حوالے سے پہلے بھی کئی بار وضاحت کر چکا ہوں کہ اس معاہدے پر میں نے دستخط نہیں کیے تھے۔
ہاں سر آپ نے الحمرا ہال لاہور میں منعقدہ کشمیر کانفرنس میں قسم اٹھا کر کہا تھا کہ معاہدے کراچی پراگر میرے اصل دستخط موجود ہوں تو میرے ہاتھ کاٹ دیں۔سر میں اپنے یونیورسٹی فیلوز اور ٹیچرز کے ہمرا ہ وہاں موجود تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔ میں نے کہا۔
میری طرف سے یہ وضاحت سن کر سردار صاحب نے اس امر کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ وہ فرمانے لگے :
’’ میں نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اس حقیقت کی وضاحت کی ہے کہ معاہدہ کراچی پر میرے دستخط جعلی ہیں۔ہو ایوں کہ وزارت امور کشمیر اور حکومت پاکستان کو شروع دن سے ہی گلگت بلتستان کا علاقہ نظروں میں کھٹکتا تھا وہ اسے حکومت آزاد کشمیر سے ہتھیانا چاہتے تھے۔ شروع میں جب مسئلہ کشمیر یو ان او میں گیا اور یو این او کے نمائندہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی آنا شروع ہوئے تو حکومت پاکستان کو اس سے تشویش ہوئی اور انھوں نے کوشش کی اور کئی بار یو این او کے نمائندوں کو گلگت جانے سے روکا۔ وزارت خارجہ کے آفیسران انھیں مظفرآباد یا میرپور وغیرہ تو لے آتے تھے لیکن گلگت لے کر جانے سے ٹال مٹول کرتے رہتے تھے۔
ہوا یوں کہ معمول کے مطابق وزارتِ امورِ کشمیر والوں نے میرے پاس ڈاک اور فائلیں ارسال کیں جب میں نے ایک فائل میں الگ سے لگا ہوا اس معاہدے کا ڈرافٹ دیکھا تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے باقی ڈاک سائن کر دی لیکن اس معاہدے نامے پر دستخط کرنے کو میرے ضمیر نے اجازت نہ دی۔ میں نے بار بار اْسے پڑھا مجھے تعجب ہوا کہ وزارت کے آفیسران نیاس بارے میرے ساتھ کوئی بات ہی نہیں کی۔چنانچہ سوچ و بچار کے بعد میں نے باقی ڈاک تو سائن کر دی لیکن اس معاہدے پر دستخط کیے بغیر ہی واپس بھیج دیا۔ میں نے کہادیکھا جائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔
اگلے روز ریڈیو پاکستان اور راولپنڈی سے شائع ہونے والے اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی کہ حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کا کنٹرول حکومت پاکستان نیاپنے پاس رکھ لیا ہے۔یہ خبر پڑھ کر میں خاموش ہو گیا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ وزارت کے کلرکوں نے چوہدری غلام عباس سے بھی اس پر دستخط کروا لیے لیکن چوہدری صاحب نے اس پر اپنی طرف سے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔
س: سر اس کا مطلب ہے آپ نے دستخط نہیں کیے تو وزارت والوں نے آپ کی طرف سے جعلی دستخط کر لیے ؟ میں نے وضاحت چاہی۔
ج: ہاں بیٹا جب وہ فائل واپس گئی تو اس معاہدے پر جہاں میرا نام ٹائپ ہوا تھا وہاں وزارت کے کسی کلرک یا سیکشن آفیسر نے خود سائن کر دیے۔ میرے سائن کوئی مشکل نہیں ہیں میں اردو میں خطِ شکستہ میں محمد ابراہیم خان لکھتا ہوں۔ایک عام پڑھا لکھا بندہ بھی دو چار بار پریکٹس کرے تو وہ میرے دستخط کر لیتا ہے۔
دیکھو ذرا میں کیسے دستخط کرتا ہوں۔ میں نے آپ کو ابھی جو اپنی کتاب دی ہے اسمیں دستخط کیے ہیں۔ میں شروع سے اسی طرح دستخط کرتا ہوں۔ آپ دیکھو میرے دستخط۔
میں نے اپنے سامنے میز پر رکھی ہوئی ان کی عطیہ کردہ کتاب اٹھا کر دیکھا تو اس میںان کے دستخط اردو میں خط ِشکستہ میں تھے۔ اور یہ دستخط کرنا واقعی مشکل نہیں تھا۔
فرمانے لگے’’ آپ نے دیکھامیرے دستخط کتنے آسان ہیں۔وزارت کے کسی آفسیر یا کلرک نے میری طرف سے دستخط کر دیے‘‘۔
س: سر یہ توجعلی دستخط ہوئے۔ آپ نے اس پر کیا ردِ عمل ظاہر کیا۔
جواب : بیٹا آپ نے کون سی کشمیریات پڑھی ہے۔ یہ سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے۔ اس میں سارا سچ نہیں چلتا۔ جھوٹ سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔آپ کو نہیں علم ہم کن حالات سے گزرے اور وزارتِ امورِ کشمیر اور پاکستانی سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہماری کتنی لڑائیاں ہوئیں۔ اس وقت میری عمر 35 سال تھی۔ میں پڑھا لکھا ، با ر ایٹ لاء� ، خوبصورت ، سمارٹ قدوقامت رکھتا تھا۔ عورتیں مجھے شوق سے دیکھتی تھیں۔ (ہنستے ہوئے)۔ مجھ پتا تھا کہ میں نے سیاست کرنی ہے تو وزارت والوں کی ہاں میں ہاں ملانا پڑی گی اگرمیں ان سے اختلاف کرتا یا شور مچاتا تو وہ مجھے اقتدار سے الگ کر دیتے۔ وہ کسی اور کو پکڑ کر اس کرسی پر بٹھا دیتے لہذا مجھے پتا تھا کہ انھوں نے جو کچھ کیا ہے وہ ہر حال میں انھوں نے کرنا ہی ہے۔ میرے اختلاف کرنے سے مجھے ہی نقصان پہنچے گا اور میرا کوئی اور سیاسی حریف آگے آکر ان کی مان کر اپنی سیاست پکی کر لے گا۔
میں ان سے اختلاف کر کے سیاست میں بلیک لسٹ ہو جاتا۔آپ کو نہیں پتا یہ بلیک لسٹ کیا ہوتا ہے۔وہ پھر مجھے کبھی بھی اقتدار میں نہ آنے دیتے۔ مجھے ہمیشہ سے سیاست سے ہی آئوٹ کر دیتے۔ پھر میں کیا کرتا میں بھوکا مرتا۔ وہ میرے کہیں بھی پائوں نہ لگنے دیتے، نہ میری وکالت چلتی نہ سیاست، صرف میں ہی نہ متاثر ہوتا بلکہ میرا پورا کنبہ قبیلہ اور خاندان بلیک لسٹ ہو جاتا اور سب بھوکے مرتے(ہنستے ہوئے) میں سدھن قبیلے کو کیا منہ دکھاتا۔ وہ کہتے ہمارا یہ نالائق اور نااہل لیڈر ہے جس نے ہمیں بھوکا مروا دیا ہے۔
دیکھو خورشید نے ان سے اختلاف کیا۔ انھوں نے اسے کتنی سزا دی۔ اسے پھر زندگی بھر اقتدار میں نہیں آنے دیا اس میں اور تو کوئی کمی نہ تھی۔وہ وزارت والوں کی بات نہیں مانتا تھا اپنی بات کرتا تھا۔ آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کی بات کرتا تھا۔ اسی لیے انھوںنے اسے بلیک لسٹ کیا ہوا تھا اور انھوں نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ خورشید کو ہر صورت میں اقتداراسے دور رکھیں گے۔ اس کا تو کوئی کنبہ قبیلہ نہیں تھا۔ میرا تو قبیلہ آزاد کشمیر کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ دیکھیں اس وقت میں چوتھی بار صدر بنا ہوں میرے قبیلے کے لوگ آزاد کشمیر کی انتظامیہ اور بیوروکریسی میں نمایاں پوسٹوں پر ہیں۔ فوج اور اجنسیوں میں بھی میرے قبیلے کے لوگ زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ان کی گڈ بک میں رہے ہیں۔ چھوٹے موٹے اختلافات ہوتے رہیلیکن ہم نے ان کی وفاداری کا حلف اٹھایا اور اس پر قائم رہے۔
س: معاہدہ کراچی پر خاموشی اختیار کرنا اور اصل صورتحال سامنے نہ لانا کیا آپ کے کردارپر سوالیہ نشان نہیں چھوڑتا؟
ج: ہاں میں مانتا ہوں کہ اس وقت خاموشی اختیار کرنا میرا قصور ہے۔لیکن میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ یہ قصور میں نے کس وجہ سے کیا ہے۔اس وقت حالات ایسے نہیں تھے کہ ہم حکومت پاکستان سے ٹکر لیتے۔ میں اگر ٹکر لیتا تو قیوم خان اکیلا ہی صدارتوں اور وزارتوں کے مزہ لوٹتا۔ وہ آئندہ50 سال تک کرسی نہ چھوڑتا۔ اس کا مقابلہ تو ہم نے ہی کیا اور تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکا۔وہ تو آج بھی اس تاک میں لگا رہتا ہے کہ کوئی ایسی بات اس کے ہاتھ لگے کہ وہ مجھے نیچا دکھا سکے اور خود آگے آسکے۔
میں نے اپنی اس غلطی کا کفارا ادا کرنے کی کوشش کی ہے اس لیے اب میں آپ لوگوں کو بتا رہا ہوں اور پہلے بھی میں پبلک اجتماعات میں بتا چکا ہوں کہ میں نے معاہدہ کراچی پر دستخط نہیں کیے تھے اگر کیے ہوں تو میرے دونوں ہاتھ کاٹ دیں۔
بیٹاآپ نہیں سمجھتے یہ مجبوری تھی۔ سیاست میں مجبوریوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے ورنہ آدمی سیاست نہیں کر سکتا اب میں مقبول بٹ کی طرح بندوق تو نہیں اٹھا سکتا مصلحت پسندی سے کام لینا پڑتا ہے۔
یہ میری باتیں آپ ریکارڈ تو نہیں کر رہے(ہنستے ہوئے)
نہیں سر ہم صرف آپ کو سن رہے ہیں ہمارے پاس تو ریکارڈنگ والی کوئی چیز نہیں۔ کرسی سے اوپر اٹھ کر میں نے کپڑے جھاڑتے ہوئے انھیں یقین دہانی کروائی۔
انھوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا
’’ہاں ہاں بیٹھ جائو میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں سچی باتیں کروں گا لیکن وہ آف دی ریکارڈ ہوں گی‘‘۔
’’ہاں سر یہ آف دی ریکارڈ ہیں۔دیکھیں ہم تو زبانی سن رہے ہیں لکھ بھی نہیں رہے۔ ‘‘


کیوں راجہ مظفر صاحب آف دی ریکاڑد ہیں ناں میری باتیں۔وہ بولے
’’ہاں سر بالکل آف دی ریکارڈ ہیں ‘‘راجہ مظفر نے وضاحت کی۔
سنو آپ میرے بچے ہو میں آپ کو سچی باتیں بتا رہا ہوں یہ باتیں آپ کو اور کوئی نہیں بتائے گا ،۔ قیوم خان تو کبھی بھی نہیں بتائے گا اس نے تو سچ نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ وہ بہت جھوٹا اور مکار ہے۔ وہ میرے خلاف سازشیں کرتا رہتا ہے۔(قہقہہ لگاتے ہوئے)۔
س: سردار صاحب تحریک آزادی کشمیر میں آپ اپنے کردار کے بارے کیا کہیں گے؟راجہ مظفر نے سوال کیا ؟
ج: راجہ صاحب ابتداء� میں تحریک آزادی کشمیر اور سیاست ایک ہی چیز سمجھی جاتی تھی۔ کوئی زیادہ فرق نہیں تھا پھر رفتہ رفتہ اس میں فرق آتا گیا۔ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس دونوں ہری سنگھ ڈوگرے کے خلاف تھیں اور دونوں ہری سنگھ کو ہٹا کر اقتدار خود سنبھالنا چاہتی تھیں۔ ہری سنگھ کوئی برا انسان نہیں تھا۔ پڑھا لکھا، شریف آدمی تھا وہ کشمیر کو متحد اور آزاد رکھنا چاہتا تھا لیکن اس صورت میں مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھیں ۔جس کے نتیجے میں ریاست تقسیم کا شکار ہوئی۔ سری نگر اور جموں کے علاقے الگ ہوگئے جن پر ہندوستان نے قبضہ کر لیا اور مظفرآباد ، میرپور پونچھ اور گلگت بلتستان کے علاقے الگ ہوگئے جن پر پاکستان نے کنٹرول حاصل کر لیا۔ ہمارے حصے میں بس یہ آزاد کشمیر کا چھوٹا سا علاقہ آیا لیکن ہمارا خیال تھا چلو یہی کافی ہے۔ نوکری کے لیے کچھ تو ہمارے ہاتھ آیا ہے۔ بعد ازاں آزاد کشمیر میں سیاست کا تحریک آزادی کشمیر سے کوئی تعلق نہ رہا اور ہم اپنے اپنے مفادات اور معاملات میں الجھ کر رہ گئے۔ ہم پیٹ پرستی کی سیاست میں لگ گئے۔ اب تو یہ کرسی محض تنخواہ لینے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ کی قسم میرے پاس کوئی اختیار اور کوئی اقتدار نہیں ہے(ہنستے ہوئے) دنیا میں اگر کسی نے کوئی بے اختیارا صدر دیکھنا ہو تو آئے وہ مجھے دیکھے(اپنی طرف دونوں ہاتھوں نے اشارہ کرتے ہوئے)۔ آئے کوئی مجھے دیکھے جس کے پاس نہ اختیار نہ اقتدار ……. سلطان محمود کب مجھے پوچھتا ہے وہ کسی معاملے میں مجھ سے مشورہ نہیں کرتا۔ فائلیں میرے پاس بھیج دیتا ہے۔ میں ان پر دستخط کرنے کا پابند ہوں یہ میری مجبوری ہے۔ مجھے فائلوں پر دستخط کرنے پڑتے ہیں نہ کروں تو کدھر جائوں۔ کیا کروں اب اس عمر میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں (ہنستے ہوئے)۔
اللہ کی قسم محمد ابراہیم خان لکھ کر دستخط کرتا ہوں اور اس کی تنخواہ اور مراعات لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں۔
٭
سردار صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا 03.00 بج چکے تھے۔ کہنے لگے’’ میں نے ملازم کو بتا یا تھا آپ کے لیے چائے تیار کرنے کا۔ اب چائے کا وقت ہو گیا ہے‘‘(یہ کہہ کر انہوں نے گھنٹی بجائی اور مجھے فرمانے لگیبیٹا ابھی باتیں اور بھی کریں گے پریشان نہ ہونا اٹھو دروازہ کھول دو۔ )
میں اپنی نشست سے اٹھا اور دروازے کی کنڈی کھول کر واپس آکر بیٹھ گیا۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور ملازم اپنیہمراہ چائے کیک اور پیٹیز وغیرہ لے آیا اس نے بڑے سلیقہ سے ہمیں چائے پیش کی چائے رکھ کر وہ باہر چلا گیا۔
راجہ مظفر صاحب بولے سر ہم جس کام کے لیے آئے تھے اس کا کیا بنے گا۔
سردار صاحب بولے ،او راجہ مظفرخان! کیوں مجھے مروانے لگے ہو، اس عمر میں اب میں مقبول بٹ کی کتاب کی تقریب رونمائی میں آکر اپنے اوپر غداری کا الزام نہیں لگوا سکتا۔ اگر میں آپ کے پروگرام میں چلا گیا تو سمجھو میری چھٹی (قہقہے) آپ امان اللہ کو بلائو ، ملک مجید کو بلائو ، خالق انصاری کو بلائو۔
سر ان کو بھی بلائیں گے لیکن ہم چاہتے تھے کہ آپ مہمانِ خصوصی بنتے تو اچھا تھا۔
او راجہ مظفر !مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں رہی کہ غدرای اور نمک حرامی کے طعنے سن سکوں۔ جو وقت آرام سے گزر رہا ہے گزرنے دو۔ آپ گھبرائیں نہیں میرے بغیر بھی آپ کا پروگرام بہت اچھا ہو جائے گا مقبول بٹ کی میرے دل میں بہت قدر اور عزت ہے لیکن کیا کروں میری مجبوری ہے۔ میں نہیں آ سکوں گاچلیں چائے پیئیں۔
شکریہ سر:
ہم چائے پینے لگے۔ دفتر میں قدر خاموشی سی چھا گئی۔ سردار صاحب نے چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے خاموشی کو توڑا اور بولے
بیٹا میری باتیں سن کر مایوس نہیں ہونا،پریشان نہیں ہونا آزاد کشمیر کی سیاست سے صرف ہم اپنے پیٹ پالتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں ملا۔ حکومت پاکستان آج بھی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے۔ انھیں اب بھی ہماری وفاداری کا یقین نہیں آیا۔ اس لییمیری وصیت ہے کہ آپ خود مختار کشمیر کے نظریے پر ڈٹے رہو۔ کشمیر کا جب بھی فیصلہ ہوا آزاد اور خود مختار ہو گا۔میرا قیوم خان کا اور شیخ عبداللہ کا دور اب ختم ہو رہا ہے۔ دنیا بھی ہمیں نہیں مانتی۔ خود مختار کشمیرکی بات دنیا سمجھ رہی ہے۔میری کتاب کشمیر ساگا کا چیپٹر 22 پڑھنا میں نے بھی ایک آزاد بفر سٹیٹ کا نظریہ پیش کیا ہے جو آپ کے خودمختار کشمیر سے ملتا جلتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم نے چائے پی کر صدر صاحب سے رخصت کی اجازت چاہی۔






Related News

پاکستان کی جبری قبضہ کا خاتمہ حتمی مقصد ہے، بی ایل ایف ترجمان گہرام بلوچ کا خصوصی انٹرویو

Spread the loveمنیش رائے کے ساتھ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان میجرRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *