Main Menu

بلوچ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ پوری دنیا کو دہشت گرد ریاست کی شر سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ چیئرمین خلیل بلوچ

Spread the love


” بلوچستان کا دکھ کیا ہے؟ ایک ایسا وطن جو پاکستان کے جنم سے پہلے آزاد تھا۔ آج اپنی آزادی کے لیے لڑرہاہے۔ پاکستانی فوج نے 1948 کو بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔ تب سے یہاں کے لوگ اپنی آزادی کے لیے لڑرہے ہیں۔ بلوچستان کی آزادی لڑنے والی سب سے بڑی پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ خلیل بلوچ سے ”Panchjanya“کے نامورصحافی اروند نے بات کی“۔

سوال: بلوچوں کو پاکستان اور پاکستان کو بلوچوں سے کیا مسئلہ ہے؟

جواب: بہت شکریہ، دیکھیں، بلوچوں کامسئلہ یہ ہے کہ 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے بلوچوں کے وطن پر بزور طاقت قبضہ کرلیا۔ ہماری آزادی سلب کی گئی۔ میرے خیال میں اس سے اور بڑی دکھت (مسئلہ) کیا ہوسکتی ہے کہ ایک قوم سے اس کی آزادی چھین لی جائے۔ پاکستان کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا اختلاف یہی ہے کہ وہ ہمارے سرزمین سے نکل جائے اور بلوچ کی آزاد حیثیت کو تسلیم

کرے۔
جہاں تک پاکستان کے بلوچوں کے ساتھ دکھت (مسئلے) یا مشکل کی بات ہے تو وہ یہی ہے کہ بلوچ نے شروع دن سے پاکستان کے جبری قبضے کو نہیں مانا ہے بلکہ اس کے خلاف لڑے، مزاحمت کی، جو تہترسالوں سے جاری و ساری ہے، پاکستان کا بلوچ سرزمین پر دہشت

This image has an empty alt attribute; its file name is Khalil-Baloch-1-1.jpg

گردانہ پالیسیوں کو دنیاکے سامنے آشکار کیا ہے، پاکستان کے اصل روپ اور چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔

سوال: بلوچستان پر اب چین کی بھی نظر ہے، اس صورت حال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: بلوچ کے وسائل کو جو بھی لوٹنے کی کوشش کرے گا یا بلوچ کو غلام رکھنے کی پاکستان کی پالیسی ہے [کوئی اس میں شریک ہوگا] ہم یقینا اس کا مخالفت کریں گے، اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ جہاں تک چین کی بات ہے، آج کے دور میں چین ایک توسیع پسند ملک ہے۔ وہ اپنی طاقت، اپنی عسکری صلاحیت یا اپنی معیشت کو بڑھانے کے لئے بلوچ سرزمین پر اپنی پالیسیاں فروغ دینا چاہتا ہے اور پاکستان اس میں چین کا معاون ہے۔ پاکستان کے ذریعے سے وہ اپنی پالیسیوں کو آگے لیجانے کوشش کر رہی ہے۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ ہماری سرزمین پر جو بھی قبضے کی کوشش کرتاہے خواہ وہ چین یا پاکستان یا کوئی اور قوت ہو، ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اس کے خلاف مزاحمت کریں۔ ہم آپ کے ذریعے دنیا بشمول چین کو بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچوں کی زمین لاوارث نہیں ہے۔ بلوچ اپنی زمین،حقوق اور وسائل کے لیے مرمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے مدمقابل چین ہو، پاکستان یا کوئی اور ہو۔

سوال: بلوچ خواتین کے ساتھ بلادکار (جنسی زیادتی)، ان کی خرید و فروخت کو وہاں کا سماج کیسے دیکھ رہا ہے؟

جواب: دیکھیں، ایسے غیرانسانی اقدامات سے اگرحوصلے پست ہوتے تو پاکستان اور پاکستان کی فوج بنگالیوں کے حوصلے پست کرتا۔ لیکن بنگالیوں کی حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ وہ آگے بڑھے اورلڑے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ایسے اقدامات سے قوموں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ ہم تو کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستان کی فوج بلوچ قوم کے خواتین کو، بیٹیوں کو درندگی کا شکار بنا رہی ہے۔ بلوچستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں میڈیا، وسیع ذرائع ابلاغ نہیں ہے تو ایسی چیزیں سامنے نہیں آرہی تھیں اور بلوچ ثقافت ایسا ہے یا دیکھیں آپ کے جیسے ملک میں ایسی باتوں کو چھپایا جاتا ہے۔ لوگ خوف یا بدنامی کی وجہ سے انہیں ظاہر نہیں کرتے ہیں تو بلوچستان میں پسماندگی زیادہ ہے،تعلیم کمیاب ہے، ذرائع ابلاغ نہیں ہے۔ یہ مشکلات ہیں تواسی وجہ سے یہ چیزیں سامنے نہیں آئی ہیں لیکن اب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستانی فوج اور دوسرے ادارے ہماری جدوجہد کو سبوتاژکرنے کے لیے، تحریک سے ہماری وابستگی کو توڑنے کے لیے ایسے غیرانسانی اقدامات کر رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ جہاں کسی قوم کا دل اپنی آزادی کے تحریک سے جڑے ہوں تو وہاں خوف نکل جاتا ہے۔ لہٰذا یہ بلوچوں کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتے۔ البتہ پاکستان کا وحشی چہرہ اور اس کی اصل حقیقت دنیاکے سامنے عیاں ہو رہاہے اور دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔

سوال: پچھلے سترسالوں سے بلوچوں کی لڑائی میں آپ کیا بدلاؤ دیکھتے ہیں؟

جواب: دیکھیں، ان تہتر سالوں میں کافی بدلاؤ آیاہے۔ دنیا میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ یقینا بلوچ قوم بھی ایک قوم کی حیثیت سے انہی تبدیلیوں میں اپنی راہیں ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں جو سب سے بڑی بدلاؤ دیکھ رہا ہوں وہ یہ کہ آج کے دور میں بلوچ زیادہ منظم اور ایک قوم کی حیثیت سے اپنی آزادی کی جدوجہدکررہی ہے۔ (آج) بلوچ قوم نے اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے مختلف ادارے تشکیل دے کر ان کے ذریعے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھارہی ہے۔لوگ ایک نظریے کی بنیاد پر تحریک سے جڑے ہیں۔ جب نظریہ انہیں مضبوطی سے جوڑتی ہے تووہ خالصتا ایک فکری جدوجہد ہوتی ہے۔ یقینا ہم ایک قبائلی اور نیم قبائلی سماج میں رہ رہے ہیں تو اثرات یقینا ہیں۔ اس کا مشاہدہ آپ اور باقی دنیا بھی کر رہا ہے، لیکن آج ہماری جدوجہد زیادہ منظم ہے۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے کہ ہم آج فرد یا گروہوں کے پیچھے نہیں بلکہ اپنے اداروں اور اپنے اداروں کے پالیسیوں کی پیروی کرکے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے نہایت اچھے اور مثبت اثرات ہمیں مل رہے ہیں اورمستقبل میں بھی نمایاں ہوں گے۔

سوال: بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی خاموشی پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟

جواب: دنیاکے مہذب اقوام اور ممالک میں انسانی حقوق اور اقدارکی قدر کی جاتی ہے لیکن پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں انسانی اقدار نہیں ہیں، وہاں انسانی حقوق کی پامالیاں بہت زیادہ ہوتی ہیں، انسانوں کو ان کا انسانی حق نہیں دیا جاتا ہے اور ہر قدم پر انہیں روندا جاتاہے۔ دنیاکے سامنے اس مسئلے کو ہم آشکار کرنے کے لیے ہم اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاکر کوشش کررہے ہیں تاکہ بلوچستان میں ہونے والی مظالم کے بارے میں آگاہی آسکے۔ یہاں اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ورکنگ گروپ سے ہمارے پارٹی کیڈرز کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ انہیں بارہا لیٹرلکھتے ہیں اور صورت ھال سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ہے۔ وہاں کسی بھی آزاد میڈیا کو آنے یا غیر جانبدار رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم گزشتہ دو دہائیوں سے یہی کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان میں اقوام متحدہ کو آزادانہ تحقیقات کے لیے نمائندے بھیجنے کی ضرورت ہے لیکن اس پرعمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ یہاں سے اکادکا خبریں ہی باہر آتی رہتی ہیں لیکن اس کا شرح انتہائی کم ہے۔ یہاں اجتماعی قبریں، ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگیوں، مسخ لاشیں یا لوگوں کے اعضاء نکالنے یا دیگر مظالم کو سامنے لایا جائے تو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات کافی گھمبیر ہیں۔ اس کا اندازہ بلوچستان کے باسیوں کے علاوہ کوئی اور نہیں لگا سکتا ہے۔ ہاں یہ سب کچھ پاکستانی میڈیاکے نظروں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن ان کے ہونٹوں پر تالے لگے ہیں۔
عالمی سطح پرانسانی حقوق کے جتنے ادارے ہیں ان سے ہماری درخواست ہے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے پے درپے پامالیوں کانوٹس لیں اور اپنے نمائندے یہاں بھیجیں تاکہ بلوچستان کی اصل صورت حال دنیاکے سامنے آسکے اور عالمی برادری اور مہذب اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطے کو انسانی بحران سے نکالنے کے پاکستا ن کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔

سوال: آپ کونہیں لگتا کہ آپ انتخابات میں حصہ لے کر اپنا کام زیادہ آسانی سے کرسکتے ہیں؟

جواب: ہمیں نہیں لگتا کہ پاکستان کے فریم میں کوئی قوم انتخابات میں حصہ لے کراپنی قوم کا بھلا کرسکے گا۔ بالخصوص جب ایک آزادی کی بات کرے۔ بلوچ اسی کی دہائی میں اس تجربے سے گزرے ہیں لیکن پاکستان میں کوئی بھی ایسا (جمہوری) ادارہ نہیں جو خودمختیار ہو، جس کی آزادانہ حیثیت ہو۔ ان اسمبلیوں میں جولوگ بھی گئے وہ انہی پالیسیوں کاحصہ بن گئے۔ انہوں نے قتل عام کے لیے ہی پالیسی سازی کی۔ کوئی ان اسمبلیوں میں پاکستانی فوج کے خلاف بات کرسکتاہے اور نہ انہیں روک سکتا ہے۔ اگرہم ایسی بھیانک غلط فیصلہ کریں توبھی ناممکن سی بات ہے کہ ہم انہیں روک پائیں گے۔ بلوچ قوم کی امیدیں پاکستانی چناؤ اور ایوانوں سے ٹوٹ چکے ہیں۔ 2013اور2018کے انتخابات کو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلوچستان ووٹنگ کی شرح دو یا تین فیصد رہا۔ بلوچستان میں لوگوں کی اکثریت اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ پاکستانی فریم میں انہیں حقوق نہیں ملے گا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ یہ سوچ بھی نہیں سکتاہے کہ وہ پاکستانی فریم ورک میں بلوچ قوم کےحقوق حاصل کرسکے گا۔

سوال: آپ لوگ بنگلہ دیش کی طرح بلوچستان کے بھی ٹوٹنے کی بات کہتے ہیں، یہ کہنے کا بنیاد کیاہے؟

جواب: بلوچستان اور بنگلہ دیش کی صورت حال مختلف ہے اور ہم نے کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ بھارت کا بنگلہ دیش کی آزادی میں جو کردار تھا وہی کردار بلوچستان میں اداکرے۔ بلوچ اپنے قوت بازو،اپنے وسائل سے اپنی جدوجہد کی آزادی لڑ رہا ہے۔ ہاں بلوچ نے یہ مطالبہ ضرور کیا کہ بھارت سمیت دنیاکے دیگر ذمہ دار ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان میں پاکستان کی بربریت اور پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ کی مددکرے۔ پاکستان نہ صرف بلوچستان بلکہ پوری خطے اور دنیا میں دہشت گردی، مذہبی جنونیت کو پروان چڑھا رہی ہے۔ ہم ہندوستان سمیت دیگر طاقتوں سے یہی اپیل کرتے ہیں پاکستان کو روکنے کے لیے ان کا ایک کردار ہونا چاہئے۔ بھارت کا نام لینے کامطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ بھارت کے بغل میں ہو رہا ہے اور اس خطے میں ایک بڑ ی ایٹمی طاقت اور ذمہ دار ملک کی حیثیت بھارت کی ذمہ داری ہے کہ اس کے ہمسایوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، مختلف (عالمی) فورمز پر اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے۔ لیکن اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ بھارت آکرہمیں آزادی دلائے گا۔

سوال: امریکہ ابھی آپ کاساتھ نہیں دے رہاہے، عالمی سطح پر بھی آپ کو مدد نہیں مل رہا، ایسے میں آپ کی لڑائی کیسے آگے بڑھے گی۔

جواب: ہماری جدوجہدکسی پہ بھی انحصارنہیں کرتا ہے۔ البتہ دنیا یا اس خطے کی سیاست میں امریکہ کا کردار اور طاقت ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہاں ایک بڑی انسانی المیے کوبڑھنے سے روک لے۔ پاکستان کا اصل روپ پر امریکی تھنک ٹھینک بہت کچھ کہہ رہے ہیں اور امریکہ کو سب سے زیادہ مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو پاکستانی فوج کے کنٹونمنٹ کے پہلو میں مارا جاتا ہے۔ بلوچستان، افغانستان یا دیگر ممالک میں پاکستان کے بھیانک چہرے اور دہشت گردانہ پالیسیوں سے لوگ واقف ہیں، ان تمام حالات کو دیکھ کر ان طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پاکستان کو روکنے میں بلوچوں کی مدد کریں کیونکہ بلوچ نہ صرف اپنی آزادی بلکہ پوری دنیا کو پاکستان جیسے دہشت گرد ریاست کی شر سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی امداد کی صورت میں بلوچ بروقت پاکستان کو روک سکے گا۔ اگر کوئی بلوچ کی مدد نہیں کرتا تو اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آزادی کی جدوجہدسے دست بردار ہوں۔ ہم امریکہ سمیت کسی بھی ملک پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔ ہم اور ہماری آئندہ نسلیں لڑتے رہیں گے اور بلوچ کسی بھی قیمت پر آزادی حاصل کریں گے۔ امریکہ اور فرانس کے مقابلے میں بھی فتح ان قوموں کی ہوئی ہے جواپنے قومی حق کے لیے لڑے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بلوچ آزادی حاصل کریں گے۔

نوٹ:
یہ انٹرویو بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے معروف ہندوستانی میگزین Panchjanya کے صحافی اروند کو دیا ہے، جو چھپنے کے علاوہ میگزین کے سائٹ اور یوٹیوب چینل پر دستیاب ہے۔






Related News

پاکستان کی جبری قبضہ کا خاتمہ حتمی مقصد ہے، بی ایل ایف ترجمان گہرام بلوچ کا خصوصی انٹرویو

Spread the loveمنیش رائے کے ساتھ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے ترجمان میجرRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *