Main Menu

August, 2020

 

کشمیر فریڈم موومنٹ کے مرکزی صدر خالد پرویز بٹ کا فکر انگیز پیغام

زندگی کا طویل حصہ اپنے عوام کو شعوروآگہی دینے کے دوران اچھے اچھے دوستوں کو بھی گنوایا جو قوم سے مایوس ہو کر تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر گئے ۔ لیکن آج بھی کشمیری قوم دنیا کی پسماندہ قوم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں اقتدار برادریوں کی اور پاکستان کی وفاقی حکومت کا محتاج ہے یہاں پر کبھی بھی صاف شفاف الیکشن نہیں ہوئے یہاں پر کامیاب امیدوار کو جب تک جی ایچ کیو سے کلین چٹ نہیں ملے گی کامیابی اس کا مقدر نہیں بن سکتی اس طرحRead More


وہ راستہ جو مجھے لینن ازم تک لے گيا؛ ہوچی منھ

“پہلے پہل کمیونزم نہیں بلکہ “حب الوطنی” تھی جو مجھے لینن کی جانب، تیسری انٹرنیشنل کی جانب لے گئی۔ قدم بہ قدم، جدوجہد کے دوران، لینن ازم کے مطالعے کے ساتھ ساتھ عملی سرگرمیوں میں شرکت سے، میں بتدریج اس حقیقت تک پہنچا کہ صرف سوشلزم، کمیونزم ہی مظلوم قوموں کو اور ساری دنیا کے محنت کش لوگوں کو غلامی سے آزاد کرا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں اور چین میں بھی “دانائوں کی کتاب” کی معجزاتی حیثیت کے بارے میں ایک کہاوت ہے۔ جب کسی کو کٹھن مشکلات کاRead More


سلاطین ہند اور سیکولرنظام مملکت،انسان دشمن فسادی جاہل مولوی

سلطان التمش (12ویں صدی) کے زمانے میں ترکستان سے آئے مولویوں اور مقامی ہندوستانی مولویوں کا کافی زور ہوگیا۔ چنانچہ انہوں نے کفرواسلام کا مسئلہ چھیڑ دیا، ملاوں کا کہنا تھا، کہ ہندو نہ اہل کتاب ہیں نہ زمی شرع میں تو ان کے لئے ایک ہی حکم ہے، کہ وہ اسلام کو قبول کریں ورنہ قتل کردیئے جائیں۔ یہ مطالبات لے کرمولویوں کا ایک وفد سلطان التمش کے پاس گیا۔ سلطان نے اپنے جہاندیدہ وزیر نظام الملک جنیدی کو اشارہ کیا، چنانچہ مولویوں کو کہا گیا، اسلام کسی کوRead More


٣١ جولائی یوم مہم جوئی، تحرير: رحيم خان

٣١ جولائی جموں کشمیر کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن ہے جب عوام کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے بغیر, منقسم و مقبوضہ ریاست کے معروضی, مادی کو سمجھے بغیر, قومی اور ریاستی سطح پر بغیر کسی تنظیم کی تعمیر کے , ایک حملہ آور اور قابض ملک کی ایما پر, اس سے بندوق لے کر دوسرے قابض کے خلاف ایسی مسلح مہم جوئی کا آغاز کیا گیا جس نے جموں کشمیر کے عوام کو بربادی کی علاوہ کچھ نہیں دیا, اس مسلح مہم جوئی سے عوام کے حقRead More


دُکھ کو تسليم کيا ہے؛ شاعر امتياز فہيم

دکھ کو تسلیم کیا ہے اور لڑے بھی ہيں سُکھ کی خاطر ستم کے آگے کھڑے بھی ہیں تجھ سے ہم کلام ہونا خوشی کی بات سہی غم اپنے تیرے تبسمِ گفتارِ سے پرے بھی ہيں وہ جن کا دعویٰ تھا ویرانے میں گل کھلانے کا دیکھا ہے وہی راہِ وفا میں لڑکھڑائے بھی ہيں قطرہِ شبنم سے کھٹن ہے مشکیں بھرنا لیکن کیا کریں کہ پیاس سے گل مرجھائے بھی ہيں اہلِ ستم سے شکوہ کیسا ، غم تو اہلِ وفا پہ ہے جن کی الگ الگ ٹولیوں سےRead More