کسان رہنما چوہدری فتح محمد کی دوسری برسی پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
بدھ 25 مئی کو پاکستان کے نامور مارکسی دانشور اور کسان تحریک کے بے لوث راہنما کامریڈ چوہدری فتح محمد کے دوسری برسی ہے، جو اپنی 72 سالہ جہد مسلسل اور ترقی پسند تحریکوں کے ساتھ رفاقت نبھاتے ہوئے گزشتہ برس ہم سے جدہ ہو گئے تھے۔ وہ اس دھرتی کے ایک ایسے بیٹے تھے جو اپنے دیش سے، اس کی مٹی سے، اس کی تہذیب و ثقافت سے اور اس میں بسنے والے انسانوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ایک سیدھے سادھے انسان، جن کو شہروں کے نامور دانشوروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بھی ہمیشہ اپنے دیہاتی کسان ہونے پر فخر رہا، اور دیہاتوں کے سادہ لوح انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنا اور ان کی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں رہنا ہی ان کی زندگی کا مقصد رہا۔
چوہدری فتح محمد متحدہ ہندوستان کے ضلع جالندھر کے ایک دور افتاد گاؤں چاڑھکے میں ایک محنت کش کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد علاقہ میں پنچایتی نظام کے ماہر سمجھے جاتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں چوہدری امیر دین ’جج‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ چوہدری فتح محمد نے گریجوایشن کے تو دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی اور وہ فوج میں بھرتی ہو کر فاشزم کے خلاف لڑنے کے لیے برطانیہ پہنچ گئے۔ جنگ ختم ہوئی تو فوج کی نوکری چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں آ گئے اور وہاں ایک لائبریری بنا کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا، اور اپنی تعلیم کا بھی دوبارہ آغاز کر دیا۔
جب برصغیر میں آزادی کی تحریک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہوئی تو سامراج نے اپنی لڑاؤ اور راج کرو کی پالیسی کے تحت ملک میں مذہبی منافرت پھیلا دی، جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اس نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چوہدری فتح محمد کے والد چوہدری امیر الدین کو انتہا پسندوں سکھوں نے بہت بے دردی سے قتل کر دیا۔ وہ 1947ء میں اپنی ماں، تین بہنوں اور چھوٹے بھائی کو لے کر نقل مکانی کر کے بحفاظت پاکستان پہنچ گئے۔ وہ جالندھر سے لاہور پیدل چل کر آئے، جس سے اُن کے پاؤں چھالوں سے بھر گئے تھے۔ چند ہفتے والٹن لاہور کے کیمپوں میں قیام کیا اور پھر ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں چک نمبر 305 گ ب میں آباد ہو گئے، اور وہیں انہیں 25 ایکڑ زمیں الاٹ ہو گئی۔
لائل پور ضلع میں ہندوستان سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی بہت بڑی تعداد تھی، جو اس امید سے پاکستان آئے تھے کہ یہ ان کا اپنا ملک ہو گا، یہاں ان کی عزت نفس محفوظ ہو گی اور ان کو سماجی برابری اور یکساں انصاف میسر ہو گا۔ جب ان کے خواب بکھرتے اور انہیں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے دیکھا تو چوہدری فتح محمد نے ان کی آبادکاری، دیکھ بھال اور متبادل زمینوں کی الاٹمینٹ میں مدد کے لیے تنظیم قائم کر لی اور سماجی کاموں میں لگ گئے۔ ان کا چھوٹا بھائی کاشتکاری کرنے لگ گیا، لیکن ابھی آباد ہوئے پانچ ماہ ہی ہوئے تھے کہ چھوٹے بھائی محمد شفیع کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنی تین بہنوں اور بیوہ ماں کا واحد سہارا رہ گئے۔
اسی دوران انہوں نے گاؤں میں کواپریٹو سوسائٹی قائم کی تا کہ باہمی اتفاق سے اجتماعی فیصلے لینے کو رواج دیا جائے، بعد ازاں سرکار نے انہیں گاؤں کا نمبردار مقرر کر دیا۔ 1948 ء کے اوائل میں انہوں نے پاکستان کسان کمیٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور کسانوں، کھیت مزدوروں اور بے زمین مزارعین کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ حکومت نے انہیں قانون کے مطابق نمبرداری کے عوض ساڑھے بارہ ایکڑ مفت زمیں الاٹ کرنا چاہا تو انھوں نے زمین لینے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ ایک سچے انقلابی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان کی تنظیم پاکستان کسان کمیٹی کے منشور میں طے شدہ حد ملکیت کے مطابق 25 ایکڑ زمیں پہلے سے ہے، اس لیے وہ اس حد سے زیادہ زمین نہیں رکھ سکتے۔
کسانوں میں بھرپور کام کی بدولت انہیں 1948 ء کے آخری عشرے میں کمیونسٹ پارٹی پاکستان کا ممبر بنا لیا گیا اور انہیں لائل پور میں ٹریڈ یونین تحریک کو منظم کرنے میں مدد کا فریضہ بھی سونپ دیا گیا۔ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کا پہلا مرکزی کنوینشن 1949 ء میں منعقد ہوا، جس کی صدارت مرزا محمد ابراہیم نے کی اور نظامت کے فرائض فیض احمد فیض نے ادا کیے۔ اسی کنوینشن میں چوہدری فتح محمد کو فیڈریشن کی مرکزی کمیٹی کا ممبر منتخب کر لیا گیا۔ بعد ازاں 1950 ء میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے تو پارٹی نے گرفتاری نہ دینے اور زیر زمین رہ کر کام جاری رکھنے کا حکم دیا۔ وہ ملک بھر میں کسانوں اور مزدوروں کی تنظیم سازی میں مدد پر جُت گئے۔ 1951 ء میں الیکشن ہوئے تو وہ انڈرگراونڈ تھے اور انہی حالات میں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا اور صرف 26 ووٹوں سے ہار گئے۔ بعد ازاں پارٹی کے فیصلہ کے مطابق گرفتاری دے دی۔
جب 1953 ء میں راولپنڈی سازش کیس بنا تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں بشمول پاکستان کسان کمیٹی، انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کو خلاف قانون قرار دے کر پابندی لگا دی گئی۔ رہائی کے بعد چوہدری فتح محمد نے دیگر ترقی پسند ساتھیوں کے ساتھ مل کر آزاد پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور سیاسی کام کا دوبارہ آغاز کر دیا اور وہ میاں افتخارالدین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔ بعد ازاں 25 جولائی 1957ء کو چوہدری فتح محمد ڈھاکہ میں منعقدہ ہونے والے کنونشن میں شریک تھے جس میں نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، جو پاکستان کی پہلی وسیع البنیاد ترقی پسند جمہوری پارٹی تھی جس کی جڑیں مشرقی پاکستان سمیت مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود تھیں۔
اس کنوینشن میں میاں افتخارالدین، عبدالحمید بھاشانی، شیخ عبدالمجید سندھی، عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، ، سی آر اسلم، سید قسور گردیزی، میاں محمود علی قصوری، حیدر بخش جتوئی، جیسے قد آور رہنما شامل تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کا بنیادی ہدف ون یونٹ کو ختم کر کے پاکستان کے وفاق کو جمہوری اور منصفانہ بنیادوں پر استوار کرنا اور عالمی سطح پر بیرونی قرضوں اور غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کر کے غیرجانبدارانہ پالیسی اپنانا شامل تھے۔
نیشنل عوامی پارٹی نے بہت کم مدت میں بے پناہ مقبولیت سے جمہوریت دشمن قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا اور انہیں خطرہ پیدا ہو گیا کہ نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ مل گئیں تو فروری 1959 ء کے انتخابات میں غیر جمہوری قوتوں کو زبردست شکست سے دوچار کر دیں گیں۔ چنانچہ 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی شب پاکستان کے پہلے صدر جنرل اسکندر مرزا نے ملکی آئین معطل کر کے اسمبلیاں تحلیل کر دیں, اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے کر ملک کی تاریخ کا پہلا باقاعدہ مارشل لاء لگا دیا اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
چوہدری فتح محمد کو ایک مرتبہ پھر گرفتار کر کے لائل پور جیل پہنچا دیا گیا۔ بعد ازاں 1960 ء میں نیشنل عوامی پارٹی کے نوجوان رہنما حسن ناصر کو اذیتیں دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کیا گیا تو اس وقت چوہدری فتح محمد بھی اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں تشدد برداشت کر رہے تھے اور اپنی سیاسی وابستگی کی قیمت ادا کر رہے تھے۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے لئے بدترین ایذا رسانی اور ناکردہ گناہوں کے اعتراف کے لئے شرمناک ہتھکنڈوں کی دہشت ناک شہرت رکھنے والا یہ عقوبت خانہ برطانوی حکومت نے 1924ء میں برصغیر میں تحریک آزادی کو کچلنے اور اس کے راہنماؤں کو اذیتیں دینے کے لیے قائم کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں لاہور جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کے ساتھ فیض احمد فیض بھی تھے۔ پھر انہیں چند ماہ لائل پور جیل رکھنے کے بعد 2 سال 4 ماہ کے لیے ان کے گھر پر نظر بند رکھا گیا۔
اپنے گاؤں نظر بندی کے دوراں انہیں اپنی زمین تک جانے کی آزادی تھی، اس لیے وہ کھیتوں پر کاشتکاری کی دیکھ بھال کرنے لگے۔ پھر رات کے اندھیرے میں سیاسی ساتھیوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، جن میں سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت علی، راؤ مہروز اختر خان، سید محمد قسور گردیزی، سی آر اسلم، میاں محمد اکرم، میاں محمود احمد قابل ذکر تھے۔ اس عرصہ میں پاکستان کے نامور سیاسی رہنماء اور چوہدری فتح محمد کے قریبی دوست سید قسور گردیزی نے انہیں کھیتوں میں کینو اور آم کا باغ لگانے کی ترغیب دی اور ملتان سے نرسری کے پودے بھیجنا شروع کر دیے۔ وہ ایک کل وقتی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے تھے لیکن کبھی بھی پارٹی سے معاوضہ یا تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ اس لیے قسور گردیزی کا کہنا تھا کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں اور باغ لگانے سے بچوں کے تعلیم اور گھر کے اخراجات کا بندوبست ہو جائے گا۔
رہائی کے بعد انہوں نے سید مطلبی فرید آبادی، سردار شوکت علی، راؤ مہروز اختر اور سی آر اسلم کے ساتھ مل کر خلاف قانون دی گئی پاکستان کسان کمیٹی کو دوبارہ ریوایو کرنے کا فیصلہ کیا، دیہاتوں میں جگہ جگہ جا کر کسان کمیٹیاں بنائیں اور 1963 ء میں ملتان میں کسان کانفرنس منعقد کر کے پاکستان کسان کمیٹی نئے سرے سے منظم کرنے کا آغاز کر دیا۔ ملتان میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے انتظامات کے لیے انہیں ایک ماہ تک ملتان میں سید قسور گردیزی کے گھر ہی قیام کرنا پڑا۔
اِس کسان کانفرنس کی کامیابی کے باعث ایک طرف تو ملک بھر میں کسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنے میں مدد ملی تو دوسری طرف کسان کانفرنسیں منعقد کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح رحیم یار خان، خانیوال، چنی گوٹھ، ٹانڈہ، لودھراں، خانپور، سرائے عالمگیر، سبی، پشاور اور ملک کے دوسرے حصوں میں بڑی کسان کانفرنسیں منعقد کی گئیں، جن کی بدولت 1970ء کی تاریخ ساز کسان کانفرنس کا انعقاد ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ممکن ہوسکا۔
سال 1969 ء میں ان کی پہلی کتاب ”پاکستان کے زرعی مسائل“ شائع ہوئی جو پاکستان میں زرعی ڈھانچہ کی ایک ڈکشنری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ”زرعی مسائل اور کسان تحریک“ شائع ہوئی اور پھر زرعی رپورٹوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو 2012 تک جاری رہا۔ صحافت کے سالار آئی اے رحمان کے بقول پاکستان کے دانشوروں اور صحافیوں کے حلقوں میں چوہدری فتح محمد کو زرعی معیشت پر انسائیکلو پیڈیا سمجھا جاتا تھا۔ وہ چوہدری فتح محمد کے ریفرنس پر بتا رہے تھے کہ اس زمانے میں اعداد و شمار میسر نہیں ہوتے تھے اور زرعی معیشت پر لکھے جانے والے مضامین کے اعداد و شمار کے لیے انہیں چوہدری فتح محمد ہی سے مدد لینا پڑتی تھی۔
چوہدری فتح محمد نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقوں میں پنچایت کا ایک ایسا مضبوط نظام قائم کیا تھا کہ جس کی وجہ سے کوئی پولیس افسر وہاں کے تھانوں میں آنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ زیادہ تر تنازعات پنچایت کے ذریعے حل کروا دیتے تھے۔ تھانہ، کچہری، محکمہ مال اور نہری نظام میں رشوت ستانی کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج بڑے تواتر سے کرتے تھے تا کہ لوگ سیاسی عمل میں پوری طرح سے شامل رہیں اور ان کے شعور اور آگہی میں اضافہ ہو۔
قیام پاکستان سے ہی ہمارے ملک میں سوشلزم کے خلاف پراپیگنڈہ اس تواتر سے کیا گیا ہے کہ اس سے اچھا خاصا پڑھا لکھا انسان بھی ذہنی طور پر متاثر ہوا ہے۔ حالانکہ سوشلزم برابری کی بنیاد پر تمام مذاہب کا احترام کرنا سکھاتا ہے اور دوسروں کے مذہبی معاملات میں مداخلت سے روکتا ہے۔ سوشلزم ہی نہیں بلکہ سیکولرازم اور عام جمہوری روایات بھی یہی کہتی ہیں۔ چوہدری فتح محمد کی سیاسی جدوجہد کا محور چونکہ دیہاتوں کے سادہ لوح انسان تھے، اس لیے وہ مذہبی بنیادوں پر گفتگو سے نہ صرف پرہیز کرتے تھے بلکہ دوسرے ساتھیوں بالخصوص شہری ساتھیوں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے تھے۔
اگر انہیں مذہبی لوگوں سے واسطہ پڑ جاتا تو ان کی پچ پر کھیلنے کی بجائے ان کو طبقاتی ظلم، جبر اور استحصال کے موضوع پر لے آتے تھے۔ اس لیے مذہبی لوگ نہ صرف ان کا احترام کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ تعلقات خوش گوار رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ اپنی روپوشی کے دوران گوجرہ کے قریب چنڈ و بٹالہ میں ایک کسان کارکن کے ہاں رہ رہے تھے تو وہاں کے امام مسجد مولوی عبداللہ ساتھ والے گھر میں رہتے تھے۔ انہوں نے چند ملاقاتوں میں ہی اسے سرگرم کسان کارکن بنا لیا۔ 1993ء میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک کسان کانفرنس منعقد ہوئی تو اس میں لاہور کے دانشور صفدر صدیقی نے بھی شرکت کی تھی اور اسی مولوی عبداللہ نے وہاں انقلابی نعت پڑھی، کِدوں مُکے گی جاگیرداری یا رسول اللہ، کِدوں آوے گی کساناں دی باری یا رسول اللہ، تو صفدر صدیقی نے واپس جا کر اس نظم کو اپنے ماہنامہ کے ٹائٹل پر سجایا۔
چوہدری فتح محمد کو 6 ماہ جیل کی ہوا تو مسٹر بھٹو کے جمہوری دور میں بھی کھانی پڑی تھی۔ بعد ازاں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سیاہ دور میں جب چوہدری فتح محمد جیل گئے تو تمام ترقی پسندوں کو قائل کیا کہ سب مل کر ایک متحدہ پارٹی کا قیام عمل میں لائیں۔ رہائی کے بعد مزدور کسان پارٹی کے رہنماؤں میجر اسحاق محمد، غلام نبی کلو اور لطیف چوہدری نے ان کے گاؤں جا کر بائیں بازو کے اتحاد اور متحدہ پارٹی کے قیام کے لیے تمام تفصیلات طے کیں اور لاہور میں ایک بڑے اجلاس کا فیصلہ کیا، لیکن بد قسمتی سے ایک ہفتہ کے بعد ہی میجر اسحاق محمد کا انتقال ہو گیا۔
ملکی سیاسی روایت تو یہی ہے کہ سیاسی لوگ جیل یاترہ کے بعد گھریلو معاملات سدہارنے میں الجھ جاتے ہیں، لیکن چوہدری فتح محمد اس کے بالکل برعکس تھے، اور ان میں جیل یاترہ کے بعد ایک نئی انرجی آ جاتی تھی۔ ضیاء مارشل لاء کے 6 ماہ فیصل آباد اور پھر جہلم جیل میں گزارنے کے بعد انہوں نے ملک بھی میں ایک بار پھر کسان کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس نے ایک طرف ترقی پسند سیاسی کارکنوں میں جمود کو توڑا تو دوسری طرف بائیں بارزو کی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی راہ ہموار کی۔ اسی دوران 1983ء میں کبیر والہ میں پاکستان کسان کمیٹی کا ڈیلیگیٹ کنوینشن منعقد ہوا تو اُس میں نامور دانشور عبدالحفیظ کاردار اور مسعود کھدرپوش نے بھی مہمان کے طور پر شرکت کی۔ اُس کنونشن میں چویدری فتح محمد نے زرعی رپورٹ پیش کی تو اُس کی بنیاد پر حفیظ کاردار نے ملک کے نامور معیشت دانوں کی تنظیم گروپ 78 کے پلیٹ فارم سے ملک کے زرعی مسائل پر سیمیناروں کو سلسلہ شروع کر دیا، جِس میں شاہد کاردار، مسعود کھدرپوش، ڈاکٹر تجمل حسین، عمر اصغر خان، ملک معراج خالد اور آئی اے رحمان نے کسان تحریک کو شہری دانشوروں اور معشت دانوں کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کبیروالا، وہاڑی، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نارووال، شیخوپورہ، اڈہ لاڑ ملتان، سانگھڑ، سبی اور جھنگ میں کسان کانفرنسیں منعقد کیں۔ 23 مارچ 2005 ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کانفرنس کے بعد بائیں بازو کی جماعتوں کا وہیں اجلاس رکھا گیا تھا جس کے اگلے اجلاس میں عوامی جمہوری تحریک کے نام سے متحدہ محاذ کی بنیاد رکھی گئی، جو بعد ازاں بائیں بازو کے مرجرز کر کے 2010 ء میں ورکرز پارٹی اور 2012 ء میں عوامی ورکرز پارٹی کی بنیاد بنا۔ 2011 ء میں وہ ہمارے پاس برطانیہ آئے تو انہیں فیض احمد فیض کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر فیض ایوارڈ سے نوازا گیا، جو فیض صاحب کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے لندن میں ایک بڑی تقریب میں انہیں پیش کیا۔
چوہدری فتح محمد کی زندگی اور جدوجہد پر جن لوگوں نے سب سے زیادہ اثرات ڈالے ان میں رودرادت جوشی، ڈاکٹر محمد عبداللہ، پروفیسر ایرک سیپرین، سید مطلبی فرید آبادی اور سی آر اسلم شامل تھے۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ تمام ترقی پسند انہیں اپنا مشترکہ اثاثہ گردانتے تھے۔ اسی لیے 90 کی دہائی میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی اختلافات کا شکار ہوئی اور دو حصوں میں بٹ گئی تو چند برسوں میں ہی انھوں نے سی آر اسلم کو قائل کر کے دوبارہ انضمام کے ذریعے پارٹی بنانے پر آمادہ کر لیا۔
چوہدری فتح محمد اپنی غلطیوں کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کرتے تھے اور اپنے سے عمر میں چھوٹے سے بھی بڑے خلوص کے ساتھ معافی مانگ لیتے تھے۔ اس کی ایک جھلک ان کے خود نوشت سوانح عمری، جو ہم پہ گزری میں بھی ملتی ہے۔ جس میں انھوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ عمر کے اس حصے میں انھیں 2010ء میں پارٹی پنجاب کی صدارت قبول نہیں کرنا چاہیے تھی، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ان کی زندگی میں متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہ آ سکی تو یہ ان کی ناکامی ہوگی۔
چوہدری فتح محمد ذاتیات، شخصیت پرستی، گروہ بندی دوہرے چہرے اور دوہرے معیار کے قائل نہیں تھے اور خود پرستی کو فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھا کر نظریاتی رنگ دینے کے خلاف تھے، بلکہ اسے جاگیردارانہ سوچ کے اثرات اور تحریک کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سماجی تبدیلی ایک وسیع تر ترقی پسند تحریک پیدا کیے بغیر ممکن نہیں، جس کے لیے ہر اس عمل کی نفی کرنا ہو گی جو باہمی نفاق پیدا کرتا ہے اور غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔
بقول بزرگ سوشلسٹ راہنما عابد حسن منٹو کے، چوہدری فتح محمد پاکستان میں کسانوں، مزدوروں، مظلوم و محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی تحریک کے سالار تھے اور زندگی بھر اپنے آدرشوں اور نظریات کے ساتھ عملی طور پر وابستہ رہے۔ وہ پڑھے لکھے، باہوش اور باکردار انسان تھے۔ انھوں نے صرف کتابی علم حاصل نہیں کیا بلکہ عملی طور پر زمین کے ساتھ جڑت پیدا کر کے لوگوں کے درمیاں رہتے ہوئے اپنے علم کو استعمال کیا۔ انہوں نے نہ صرف دیہاتوں میں کسانوں، مزارعین، اور کھیت مزدوروں کی تربیت کر کے ایک مضبوط اور دیرپا تحریک کو منظم کیا بلکہ شہروں کے نچلے درمیانہ طبقہ، دانشوروں، خواتین، طلباء اور نوجوانوں کو بھی متاثر اور منظم کیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مظلوم و محکوم اور استحصال کے شکار طبقات کو وسیع پیمانے پر منظم کیے بغیر سماجی تبدیلیی ممکن نہیں۔
آج چوہدری فتح محمد کی دوسری برسی ہے اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور تمام ترقی پسند، انسان دوست اور جمہوریت پسند قوتوں کو اکٹھا کریں اور اس نیم آزاد، جدید نوآبادیاتی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کریں۔
چوہدری فتح محمد نے اپنی خود نوشت سوانح جو ہم پہ گزری میں کیا خوب لکھا ہے کہ میں نے پاکستان میں ہزاروں، لاکھوں دوستوں اور کامریڈوں کے ساتھ مل کر اس ملک میں سماجی تبدیلی کا خواب دیکھا تھا اور ہم سب مل کر یہ تبدیلی لانے کے لیے ساری زندگی مقدور بھر کوشش کرتے رہے، لیکن ہماری کوششیں ہماری آرزووں اور تمناؤں کے مطابق نتیجہ خیز نہ ہو سکیں۔ اس کے باوجود نہ تو کوئی پشیمانی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا پچھتاوہ ہے، کیوں کہ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت۔ سماجی تبدیلیاں بسا اوقات، بقول لینن، صدیوں میں نہیں آتیں اور جب آنے لگتی ہیں تو عشروں میں رونما ہو جاتی ہیں۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صورتِ ہزار کا موسم
Related News
اکتوبر 47 ، تاریخ اور موجودہ تحریک تحریر : اسدنواز
Spread the loveتاریخ کی کتابوں اور اس عمل میں شامل کرداروں کے بیان کردہ حقائقRead More
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور آئی ایس آئی کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
Spread the loveپاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور آئی ایس آئی کے ہاتھوںRead More