Main Menu

بلوچ برمش کا خودکش حملہ: ایک نیا ابھرتا ہوا خطرہ : نصیب اللہ اچکزئی

Spread the love

خواتین کے خودکش حملے 1980 کی دہائی کے آغاز سے ہی مسلح تنظیموں اور آزادی پسند تحریکوں میں اہم کردار ادا کرتی آ رہی ہیں۔ اگر چہ کسی خاتون کا پہلا خودکش حملہ 1981 میں لبنان میں ہوا تھا۔ لیکن بعد میں، اسے سال 1983 میں اس وقت عالمی شہرت ملی، جب بیروت میں امریکی سفارت خانے پر ایک خاتون کے خودکش حملے کے نتیجے میں 63 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ حزب اللہ نے کیا تھا، جو لبنان میں مغربی فوجی دستوں کی موجودگی کے خلاف تھا۔
1985 میں خاتون خودکش بمبار، ایک لبنانی لڑکی صنعاء مہیدالی نے 1985 میں لبنان میں اسرائیلی قافلے کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس میں پانچ اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ اس کے بعد سری لنکا، ترکی، چیچنیا، اسرائیل، عراق، افغانستان، انڈونیشیا، نائیجیریا، بیلجیم، روس اور پاکستان میں حملے بڑھتے چلے گئے۔ مشہور خواتین خودکش بمبار تنظیموں میں Black Widow نامی تنظیم، چیچن خواتین خودکش گروپ اور سری لنکن ایل ٹی ٹی ای کی خواتین بلیک ٹائیگرز (لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم) شامل رہی ہیں۔ 1985 سے 2006 کے درمیان 220 سے زیادہ خواتین خودکش حملے کر چکی ہیں۔ حقیقت میں مذہبی اور سیکولر دونوں تنظیموں نے اس ہتھیار کو انتہائی بے رحمی سے استعمال کیا۔ پاکستان میں کسی خاتون کا پہلا خودکش حملہ 25 دسمبر 2010 کو باجوڑ ایجنسی میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک پروگرام کے دوران ہوا۔
موجودہ بم دھماکا جو شری برنش نے کیا تھا بلوچ علیحدگی پسند تحریکوں میں پہلا واقعہ تھا جس نے کراچی یونیورسٹی میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں تین چینیوں سمیت چار افراد ہلاک ہوئے بشمول کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہوانگ گوپنگ اور دو اساتذہ ڈنگ موپینگ اور چن سا بھی شامل تھے شری عرف برمش ضلع کیچ، بلوچستان میں پرائمری اسکول ٹیچر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ان کے شوہر ڈاکٹر تھے جبکہ ان کے والد ایک سرکاری ایجنسی سے ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے جنہوں نے بعد میں ضلع کونسل کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں، جب کہ ان کے چچا پروفیسر ہیں۔ وہ اپنے خاندان کی طرح ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ اس نے ایم ایس سی زولوجی اور ایم فل ایجوکیشن کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔
کیا خواتین کے خودکش حملے کا یہ طریقہ بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے لئے کامیاب ثابت ہو گا؟ یقیناً نہیں۔ بلوچ باغی گروپوں کی جانب سے خودکش حملے اور نہ ہی فوجی آپریشن بلوچستان کے مسئلے کو حتمی حل کی طرف لے جائیں گے۔ حملے دباؤ بڑھانے کا حربہ تو ہو سکتا ہے لیکن دوسری طرف، یہ عام بلوچوں کی زندگی کو مزید تباہ کر دے گا جو پہلے ہی پسماندگی میں اور قرون وسطیٰ جیسے ماحول میں رہ رہیں۔
موجودہ خودکش حملے کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے کیونکہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب نئی پاکستانی حکومت چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے اور خاص طور پر سی پیک کا پہیہ دوبارہ چلانے کی تگ و دود میں ہے۔
اس حملے کو پاکستانی پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ بلوچستان کے عوام کی تکالیف اور دکھوں کا حل نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔ صوبے کے بنیادی مسائل جیسے احساس محرومی، اور مصائب ابھی تک تشنہ طلب ہیں۔ سابق وزیر خارجہ و داخلہ جناب مشاہد حسین سید نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ میں بلوچستان کے امن کے حوالے سے تجویز کیا۔ کہ بلوچستان کی سیاست کو کھیل کے طور پر نمٹنا بند کر دینا ہو گا، لاپتہ افراد کے مسلے کو حل کرنے، مقامی کمیونٹیز کے لیے ترقی کے فوائد کو یقینی بنانے، اتحاد پر لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے ۔
خودکش حملہ قابل مذمت ہے جو بھی، کسی بھی مقصد کے لیے کرتا ہو قابل گرفت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ گولی کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہو سکتی۔ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ ابھی تک پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچا۔ عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ ریاست کو ماں جیسا سلوک کرنا چاہیے اور مسلے کے حل کے لئے بات چیت ہی بہترین حل ہے بشرطیکہ سچے بلوچ رہنما اس معاملے میں خلوص نیت سے شریک ہوں۔ اور یہ کہ کٹھ پتلی سیاسی لیڈروں کو صوبے کے معاملات سے دور کرنا ہو گا۔ کیا ہم بامعنی بات چیت شروع کر کے امن کو موقع دے سکتے ہیں؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *