Main Menu

صدائے حق و ندائے حق ڈڈیال؛ تحریر : قیوم راجہ

Spread the love

پونچھ ٹائمز

نیکی اور بدی کامقابلہ روز اول سے جاری ہے اور جاری رہے گا کبھی نیکی حاوی ہو جاتی ہے اور کبھی بدی لیکن دنیا کے کسی بھی خطے اور معاشرے میں ان دونوں کا کبھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا اور نہ ہو گا کیونکہ نیکی اور بدی کی جنگ میں جو جس کا ساتھ دے گا اس کا اہنے اسی اختیار کی بنیاد پر روز محشر حساب ہو گا۔ آزاد کشمیر کے شہر میرپور کو آسودگی اور خوشحالی کی وجہ سے منی لندن کہا جاتا ہے۔ ایک وقت میں یہ خوبصورت شہر منگلہ ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے اجڑا۔ لوگ ولایت چلے گے جہاں سے محنت مزدوری کر کے میرپور کی رونقیں ایک بار پھر بحال کیں مگر پھر دولت کے اس نشے نے اس شہر کے باسیوں کو اتنا مد ہوش کیا کہ وہ اہنے ارد گرد کے ماحول ، ظلم و ستم زیادتی اور ریاستی جبر و تشدد سے اتنے بے خبر ہو گے کہ غریب کمزور نادار پر ظلم سے وہ صرف غافل ہی نہ ہوئے بلکہ اس طرح اس سے لطف اندوز ہونے لگے جس طرح عرب شہزادے پاکستان میں آ کر نابالغ بچوں کو خرید کر اپنے ملک لے جا کر اونٹ ریس کے لیے لے جاتے ہیں جہاں وہ بچوں کو اونٹوں پر بٹھاتے ہیں۔ جب اونٹ دوڑتا ہے تو بچے خوف سے روتے ہیں بچے جتنا زیادہ روتے ہیں اونٹ اتنا زیادہ دوڑتا ہے۔

ڈڈیال ضلع میرپور کی ایک تحصیل ہے جو کتا کشی یا کتوں کی لڑائی کے کھیل کی اتنی اسیر ہے کہ جب اس پر مقامی لوگوں کی مہم کے نتیجے میں پابندی لگی تو کتا کھیل کے اسیروں نے اعلان کیا جو امیدوار انکے اس کھیل کو بحال کروائے گاوہ اس امیدوار کو الیکشن میں ووٹ دیں گے۔ اس ڈڈیال میں جہاں طرح طرح کی خرافات اور غیر انسانی شوق رکھنے والی عجیب و غریب مخلوق پائی جاتی ہے وہاں خواجہ افتخار صاحب اور راجہ سرفراز صاحب جیسی صاحب نظر و فکر اور اصلاح پسند شخصیات بھی رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی کسی معاشرے کواپنے نیک بندوں سے مکمل طور محروم نہیں کرتا ورنہ دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ خواجہ افتخار اور راجہ سرفراز نے ڈڈیال کے اندر پائی جانے والی سیاسی وسماجی خرابیوں اور ناانصافیوں کو ختم کرنے کے لیے 2011 میں صدائے حق کے نام سے ایک اصلاحی تنظیم کی۔ یوں تو یہ تنظیم غیر سیاسی تھی لیکن صرف الیکشن میں حصہ نہ لینے کا مطلب غیر سیاسی نہیں ہوتا کیونکہ جب اس نظام کی تبدیلی کی جد وجہد کی جائے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے تو پھر وہ غیر سیاسی نہیں رہ سکتا اور نہ ہی انصاف و سماج دشمن قوتیں اسے غیر سیاسی رہنے دیتی ہیں۔ اس تنظیم نے نسلی، لسانی ، جنسی، علاقائی، قبائلی تعصب کے خلاف جد و جہد اور کمزوروں کو مفت قانونی چارہ جوئی کی خدمات کے صلے میں شہرت پائی تو سرکار نے اسے طرح طرح کے جھوٹے مقدمات میں الجھا کر اس ہر پابندی لگا دی ادھر ڈوبے ادھر نکلے کے اصول پر حق و سچ کا یہ قافلہ رکا نہ جھکا۔ 2014 میں صدائے حق پر پابندی کے نتیجے میں صدائے حق کا مشن ندائے حق کے نام سے جاری رہا ۔ حق و باطل کی اس معرکہ آرائی میں سرکار نے تجویز دی کہ ندائے حق چونکہ ایک این جی او ہے جو صرف رفاہی کام کرے اور اداروں کی اصلاح کی جد و جہد چھوڑ دے چونکہ یہ ایک سیاسی تحریک کا کام ہے لیکن صدائے حق کا مؤقف تھاکہ سیاسی اصلاحات کے بغیر نظام میں بہتری لانا اور انصاف قائم کرنا مشکل ہے۔ سرکار کی طرف سے اس طرح کی رکاوٹوں کے پیش نظر ندائے حق نے کچھ عرصہ قبل نیا نام صدائے حق پارٹی آزاد کشمیر رکھ لیا جو اب کھل کر سیاسی میدان میں سیاسی اصلاحات کے لیے کام کر رہی ہے ۔ اسکا صدر دفتر اسی ڈڈیال میں ہے جو ڈڈیال جھنڈا کیس کی وجہ سے اجکل عالمی خبروں کی توجہ کا مرکز ہے ۔

صدائے حق پارٹی کے چیئرمین خواجہ افتخار اور صدر راجہ سرفراز خان ہیں۔ چھ افراد پر مشتمل کل وقتی سٹاف کے دفتر میں راقم کو خواجہ افتخار صاحب نے ملاقات کی دعوت دی۔ دفتر کے اندر جدید نظام اور مستعد سٹاف دیکھا گیا ۔ دفتر کی دیواروں پر اصلاحی بینرز لگے ہوئے تھے جن میں سے ایک پر ایران کے مشہور مفکر علی شریعتی کا قول درج تھا جسکی تصویر اس کالم کے ساتھ ارسال کی جارہی ہے دفتر میں ہر وقت چھ سٹاف ممبران موجود ہوتے ہیں جبکہ اراکین کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے جو انسانی بنیادوں ہر اندرون و بیرون ملک بھی اپنے رشتے استوار کر رہی ہے معاشرے میں کامیابی و ناکامی اور خوبی و خامی کے اصول اور معیار تو بدلے ہی ہیں، عدلیہ کا یہ حال ہے کہ ججوں کے کلرک بھی رشوت لے کر تاریخ دیتے ہیں۔ جو وکیل جج کے کلرک کی مٹھی گرم کرے اسے تاریخ جلدی اور جو نہ دے اسے لمبی تاریخیں دے کر کیس کو لٹکایا جاتاہے یہاں تک کہ وکیل صفائی کو استغاثہ بھی ملزم اور مستغیث سے اپنا حصہ مانگنے میں شرم محسوس نہیں کرتا جس ملک کے اندر عدالتوں کا یہ حال و معیار ہو وہاں عزاب الٰہی نازل نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح سر عام رشوت مانگنے والے بھی خود کو عزت و احترام کے قابل تصور کرتے ہوئے سر اٹھا کر چلتے ہیں اسی لیے میں خواجہ افتخار کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ معاشرے کے معیارات بدل گے ہیں لیکن آئیے حق و سچ کے اس قافلے میں شامل ہو کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنیاد پر جد و جہد جاری رکھیں۔ قتیل شفائی نے کیا خوب کہا

اس سا منافق نہیں اس زمانے میں قتیل
جو ظلم تو سہتا ہے پر بغاوت نہیں کرتا ۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *