Main Menu

ریڈ انڈین؛ تحرير: نيلم اعوان

Spread the love

مغرب کی پوری تاریخ کی جڑیں نسل پرستی اور انسانیت دشمنی میں پیوست ہیں۔ رومن امپائر نے عیسائیت قبول کرنے کے باوجود یورپ اور اطراف کے ممالک کے 80فی صد قبیلوں کا قتل عام کیایا انہیں غلامی میں لیا۔ ڈھائی سو سالہ مقدس صلیبی جنگوں میں روم سے لے کر فلسطین تک راستے میں پڑنے والے تمام شہروں کو جلا کر خاک اور انسانوں کو قتل کردیا۔ امریکا اور مغرب نے انسانیت کے خلاف جو بھیانک جرائم کیے ہیں ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف بیسویں صدی میں اہل مغرب نے دنیا بھر میں 33کروڑ انسانوں کو قتل کیا اور 17کروڑ انسانوں کو بھیانک سزائیں دیں۔ (انسائیکلو پیڈیا آف وائلنس یا کیلی فورنیا: پروفیسر مائیکل مین) پروفیسر مائیکل مین کی دیگر کتابوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 122قبل مسیح سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک تقریباً تیس کروڑ چالیس لاکھ انسان قتل کیے گئے۔ یورپی غلبے کے بعد صرف افریقی باشندوں کو پکڑ پکڑ کر جہاز بھر بھر کر غلام بنانے کے سلسلے میں ایک کروڑ ستر لاکھ انسان قتل کیے گئے۔

امریکہ کے سرخ فام باشندے جنہیں عرف عام میں ریڈ انڈین کہا جا تا ہے، وہ آج کے زمانے میں شکست ذات کی تصویر ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب بحرالکاہل اور اوقیانوس کے درمیان چلتی ہوائیں، منہ زور آندھیاں، شہ زور بگولے اور افق تابہ افق پھیلی زمین ان کا گھر تھی۔ اس زمین میں جانوروں، درختوں اور چرند پرند کے ساتھ ان کی برابر کی شراکت تھی۔ ان کا زمین اور تمام مظاہر فطرت کے ساتھ تقدیس کا رشتہ تھا جس میں سب ایک ساتھ بندھے ہوئے تھے۔
براعظم امریکہ میں ریڈ انڈین قبائل کی تاریخ تقریباً پندرہ ہزار سال پرانی ہے۔ وسیع جغرافیے میں بکھرے ہوئے یہ لوگ مختلف قبیلوں اور قوموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ اور وسعت زمین نے ان کے رسم و رواج اور اساطیری حوالے کچھ حد تک ایک دوسرے سے جدا کر دیے، اس کے باوجود زندگی، ماحول اور فطرت کے ساتھ ان کا رویہ اور رشتہ صدیوں کے سفر میں کم و بیش ایک سا رہا ہے۔ جیسے فطرت کی جانب ان کی نگاہ شناسی ایک سی تھی، قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخ نے ان کے ساتھ ظلم و جبر بھی ایک جیسا روا رکھا۔

جب کولمبس امریکا پہنچا تو اس مغربی نصف کرہ ارض پر بعض روایات کے مطابق 80 لاکھ اور بعض روایات کے بموجب سات کروڑ انڈین آباد تھے۔ بہرحال مؤرخین کی اکثریت دو کروڑ پر متفق ہے۔ چونکہ کولمبس کے خیال کے مطابق وہ انڈیا پہنچ گیا تھا اس نے ان لوگوں کو انڈین کا نام دیا، لیکن دراصل یہ لوگ برصغیر سے متعلق نہیں۔ بعد میں ہندوستان سے تمیز کرنے کے لیے انھیں ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی کہا جانے لگا۔ بعد میں وسطی امریکہ اور جنوبی امریکا کے انڈین بعد میں آنے والے لوگوں میں گھل مل گئے جس سے ایک نئی نسل وجود میں آئی۔

امریکا کے بہت قبائل میں یہ اصطلاح نسل پرست مانا جاتا ہے کیوںکہ درحقیقت یہ “سرخ ہندی” لوگ سرخ نہیں ہیں اور ہندی نہیں ہیں۔ استعماری عرصے سے سفیدفام نواباد باشندوں نے سرخ ہندی یا ریڈ انڈین ایک بدنام جیسے استعمال کیا تھا۔ اج تک یہ عمل کبھی کبھار جاری ہے۔


ریڈ انڈین تہذیب میں زندگی کا حیاتیاتی شعور تو کسی طرح بھی دوسروں سے کم یا زیادہ نہیں، مگر میکانکی پہلووں میں یورپی قومیں ریڈ انڈین قوموں سے بہت مختلف طور پر بڑھی پھولی ہیں۔ شمالی امریکہ میں کیوٹی نام کا بھیڑیے نما جانور کئی قبیلوں میں ریڈ انڈین بچوں کے لئے استاد کی طرح ہے جس سے حکمت اور پرکشش چالبازی کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے جو شکار کی تربیت کا اہم جزو ہے۔ کہانیوں میں کیوٹی جانور شکاری کو اس کی اہمیت بحیثت شکاری سمجھاتا ہے۔ ”شکار کا گوشت کھا کر تمہارا جسم اور تمہارے شکار کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ اب یہ تمہارے فرائض میں شامل ہے کہ تم اپنی زندگی میں سے کچھ اپنے شکار کی جانب واپس بھی لوٹاؤ۔ یہ فطرت کی جانب اظہار تشکر ہے کہ جس نے تمہارے زندہ رہنے کا سامان کیا ہے“۔

یورپ کی تعلیم نے اسطوریاتی ادراک کی جگہ میکانکی سوچ کو پروان چڑھایا اور اسے ظاہری تجسیم عطا کی۔ اس مطمع نظر نے انسان اور فطرت کا رشتہ ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ انسان نے خود کو فطرت کا حصہ ماننے کی بجائے اسے ایک ”کموڈیٹی“ کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ جب یورپی حملہ آوروں کی امریکہ میں آمد ہوئی تو ان کے نزدیک نئی زمین ایک کموڈیٹی تھی۔ اس کو فتح کر کے اپنی ذاتی ملکیت بنانے میں ان کی بہادری اور زندگی کا جوہر تھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ ریڈ انڈین اقوام کے لئے زمینی اور مادی شکست کے ساتھ یہ لمحہ شکست ذات کا بھی تھا۔

یورپی قوموں نے ریڈ انڈین کو شکست دینے کے بعد ان کے ساتھ کیے گئے سارے معاہدوں میں ان کے طرز زندگی کو تبدیل کر کے انہیں چھوٹے چھوٹے علاقوں تک محدود کرنا شروع کر دیا۔ ان علاقوں کو ریزرویشن کہتے ہیں۔ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ بہت سے ریزرویشن کے علاقوں میں معاہدے کے باوجود خوراک کی قلت نے بھوک کے علاوہ بھی بہت سی بیماریاں پیدا کیں۔ ماضی میں ریڈ آنڈین باشندوں کی بہت سی اموات بھوک اور اسی سے متعلقہ دیگر وجوہات کی بنا پر ہوئیں جسے انہوں نے جیسے تیسے برداشت کر لیا؛ مگر ان کے کلچر اور تہذیبی ورثے کی شکست نے ان کے اعصاب مضمحل کر دیے ہیں۔

جب کولمبس امریکا پہنچا تو اس مغربی نصف کرہ ارض پر بعض روایات کے مطابق 80لاکھ، بعض کے مطابق سات کروڑ انڈین آباد تھے۔ مورخین کی اکثریت دو کروڑ پر متفق ہے۔ ریڈ انڈینز کے بارے میں کولمبس اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے: ’’وہ ہمارے لیے رنگ برنگے پرندے، روئی کے گٹھے، کمانیں اور دوسری اشیالے کر آئے اور بدلے میں ہم سے بیلوں کی گردن میں ڈالنے کی گھنٹیاں اور شیشے کی لڑیاں لے گئے۔ یہ لوگ، سادہ جفا کش اور بے ضرر نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو ہتھیاروں کے استعمال کا علم ہے نہ ہی کسی ہتھیار سے مسلح ہوتے ہیں۔ جب میں نے انہیں اپنی تلوار دکھائی تو بیش تر نے اپنی انگلیوں اور ہاتھوں کو تیز دھار تلوار سے زخمی کرلیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ بہترین خدمت گار اور بہترین غلام ثابت ہوںگے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کی مدد سے تمام آبادی پر غلبہ پاسکتے ہیں‘‘۔ ایک اور جگہ کولمبس لکھتا ہے: ’’ریڈ انڈین اپنے دفاع کے قابل نہیں۔ ان کے رسم ورواج میں ذاتی ملکیت کا تصور ناپید ہے۔ ان سے کچھ بھی طلب کیا جائے وہ دینے سے انکار نہیں کرتے۔ زمین اور وسائل کسی کی ملکیت نہیں بلکہ مشترکہ استعمال اور ملکیت کا قانون رائج ہے۔ اگر بادشاہ اور ملکہ میری مدد کریں تو اتنا سونا لادوں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو اور اتنے غلام لادوں کہ جتنوں کا حکم دیا جائے‘‘۔
ملکہ اور بادشاہ کو راضی کرنے کے بعد کولمبس 25دسمبر 1493 کو شمالی امریکا کے سفر پر روانہ ہوا تو اس کی کمان میں 17جہاز تھے۔ جن میں 1200 افراد بھرے ہوئے تھے۔ ایک سے بڑھ کر جنگجو، تلوار باز، تجربہ کار تیرانداز۔ اکثریت خطرناک جرائم پیشہ افراد کی تھی۔ اس قافلے اور اس کے ساتھ جانے والے سامان کی کثرت پر نظر کی جاتی تو آسانی سے سمجھ میں آجاتا تھا کہ یہ لوگ قبضے، لوٹ مار اور مستقل رہائش کے لیے جارہے تھے۔ جب کولمبس امریکا اس مقام پر پہنچا جہاں وہ پہلی مرتبہ گیا تھا تو اسے مقامی لوگ نظر نہ آئے۔ ریڈ انڈینز کے رہائشی جھونپڑے جلے ہوئے تھے اور ان کی کٹی پھٹی لاشیں جابجا بکھری ہوئی تھیں۔ یہ ریڈ انڈینز کولمبس کے آدمیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے جن کو کولمبس آبادکاری کی غرض سے چھوڑ گیا تھا۔ قتل وغارت کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو صدیوں تک چلتا گیا۔ 1494 سے 1508 تک پندرہ سال کے عرصے میں صرف جزائر غرب الہند میں چالیس لاکھ سے زیادہ ریڈ انڈینز قتل کیے گئے۔ باقی مقبوضہ علاقوں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ مشہور مورخ ہاورڈزین لکھتا ہے:
’’بہاماس کے ساحل پر جب کولمبس کے جہاز لنگر انداز ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے ریڈ انڈینز کے بڑے قبائل کے افراد ناپید ہوگئے۔ وہ پا بہ زنجیر ہوئے اور غلام بناکر اسپین روانہ کردیے گئے یا قتل ہوگئے۔ ہسپانوی آبادکاروں کے ہاتھوں صرف بہاماس اور ہیٹی کے جزائر کے ایک لاکھ ریڈ انڈینز قتل ہوئے۔ کولمبس کے لشکری ایک کے بعد ایک جزیرے میں تلواریں لہراتے ہوئے جاتے، عورتوں کی آبروریزی کرتے، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرتے اور جوانوں کو زنجیریں پہنا کر ساتھ لے جاتے۔ جو مزاحمت کرتا قتل کردیا جاتا‘‘۔
صدیوں سے امن وامان، سکون اور مل جل کر رہنے والے ریڈ انڈینز کے لیے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔ انہیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ اس ناگہانی آفت سے کیسے نمٹا جائے۔ جن لوگوں کے پاس جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ڈھنگ کے ہتھیار نہ تھے وہ ان قاتلوں، جنگجوئوں اور جلادوں کا کیسے مقابلہ کرتے۔ کولمبس کے ساتھ جانے والا ایک عیسائی مبلغ لاکس کیسس لکھتا ہے:
’’ہسپانوی آبادکاروں نے اجتماعی پھانسیوں کا طریقہ کار جاری کیا۔ بچوں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو اپنے کتوں کے سامنے بطور خوراک ڈال دیا جاتا تھا۔ عورتوں کی اکثریت اس وقت تک جنسی تشددکا شکار رہتی جب تک مر نہ جاتیں۔ گھروں کو آگ لگادی جاتی اور ریوڑ کی صورت میں بھاگتے غیر مسلح اور ناقابل دفاع لوگوں کا تیز رفتار گھوڑوں سے تعاقب کیا جاتا اور انہیں تیر اندازی کی مشق کے لیے استعمال کیا جاتا۔ یوں چند ہی گھنٹوں میں شہر کا شہر زندگی سے عاری ہوجاتا اور ہسپانوی ان کی زمینوں پر قبضہ کرتے چلے گئے‘‘۔
ریڈ انڈین ہزاروں سال قبل مسیح سے امریکا میں متمدن اور پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اصل مرکز اوکلا ہاما تھا جہاں آج صرف چند ہزار ریڈ انڈینز باقی بچے ہیں۔ یورپ کے مہذب مداخلت کاروں کا نعرہ تھا کہ مغربی تہذیب کے لیے ریڈ انڈینز قبائل کا خاتمہ ضروری ہے۔ جارج واشنگٹن نے اپنے جنرل کو ہدایت دی تھی کہ ارکو قبیلے کی تمام باقیات کے خاتمے تک امن کا کوئی نغمہ سننے کی ضرورت نہیں۔ تمام سرخ بھیڑیوں کو ختم کردو۔ امریکا کے عظیم ترین جمہوریت پسند صدر تھیوڈو روز ویلٹ کا کہنا تھا کہ تمام جنگوں میں سب سے عظیم جنگ وہ ہے جو ریڈ انڈین وحشیوں کے خلاف لڑی گئی۔ 1860 سے 1884 تک 24سال کی مدت میں صرف کیلی فورنیا میں ریڈ انڈین کی آبادی 51لاکھ سے کم ہوکر صرف 13ہزار رہ گئی تھی۔ قانوناً ریڈ انڈین کو قتل کرنے پر کوئی سزا نہیں تھی۔ ریڈ انڈین جہاں نظر آتے گولی سے اڑادیے جاتے یا زنجیروں میں جکڑ کر غلام بنادیے جاتے۔ کروڑوں ریڈ انڈین کو قتل کرنے کے علاوہ ان میں بیماریاں پھیلانے کے لیے چیچک زدہ کمبل تقسیم کیے گئے۔
اس طویل تمہید کے بعد آئیے ریڈ انڈینز سرداروں کی تقاریر ملاحظہ فرمائیں۔ ان تقریروں میں آپ کو چار سو تباہی وبربادی سے لڑتے نہتے، بے بس اور مظلوم انسان نظر آئیں گے۔ مرگ وہلاکت کی ویرانیوں میں سفید فام، وحشی اور سیاہ کار درندوں سے پناہ کی تلاش میں سرگرداں زندگی نظر آئے گی۔
٭ ایک دن زمین روئے گی۔ وہ رو رو کر اپنی زندگی کی بھیک مانگے گی۔ وہ خون کے آنسو روئے گی۔ تب تمہارے سامنے دو ہی راستے بچیں گے، تم اس کی مدد کروگے یا اسے مرتا چھوڑ دوگے اور اس کے مرتے ہی تم بھی ختم ہوجائوگے (جان ہالو ہارن، اوگلالا قبیلہ 1932)
جسے تم پیار سے حاصل کرسکتے ہو وہ تم جنگ کرکے کیوں حاصل کرنا چاہتے ہو؟ تم آخر کیوں ہماری بربادی کے درپے ہو؟ ہم تو تمہیں خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جنگ سے تمہیں آخر حاصل ہی کیا ہوگا؟ ہم غیر مسلح ہیں اور تمہیں جو چاہو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ تم دوست بن کر آئو۔ لے جائو اپنی بندوقیں اور تلواریں۔ تمہارے سارے حسد کی جڑ یہیں ہیں۔ ورنہ تم خود بھی اسی طرح مارے جائو گے (پوہاٹان، جان اسمتھ سے منقول)
وہ جو جی میں آئے کرتے ہیں۔ اپنے سے مختلف رنگ کے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسی روح عظیم کی مخلوق ہیں جس نے خود انہیں پیدا کیا ہے۔ جسے وہ غلامی کی زنجیر نہ پہنا سکیں اسے مار ڈالتے ہیں۔ ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔ یہ لوگ ہم سرخ ہندیوں کی طرح نہیں جو صرف جنگ کے دوران دشمنی کرتے ہوں اور امن کے زمانے میں دوست بن جاتے ہوں۔ کسی ہندی سے بات کرتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ پکڑکر اسے دوست اور بھائی کہہ کر پکاریں گے لیکن ساتھ ہی اسی لمحے اسے مار بھی ڈالیں گے۔
وہ ہم سے کہنے لگا ’’تم لوگ پیچھے کی طرف چلے جائو اور وہاں اپنے لیے نیا ٹھکانہ ڈھونڈو کہیں غلطی سے میں تمہیں روند نہ ڈالو۔ ایک پائوں سے اس نے سرخ فام ہندیوں کو اوکونی (جنوبی کیرو لینا) سے پرے کھدیڑا اور دوسرے پائوں سے اس نے ہمارے پرکھوں کی قبریں روند ڈالیں۔۔۔ چیزوں کی ملکیت کی محبت ان میں ایک وباکی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے بے شمار قوانین بنارکھے ہیں جنہیں دولت مند جب چاہیں توڑ سکتے ہیں لیکن مفلس کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ ان کا مذہب ایسا ہے جس میں غریب تو عبادت کرتے ہیں لیکن امیر نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ غریبوں سے ٹیکس لے کر دولت مندوں اور حکمرانوں کو دیتے ہیں۔۔۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین کی بدولت ہمیں ایک تنکا، درخت، بطخ، ہنس یا مچھلی تک نہیں ملی۔ جب تک وہ زندہ ہے آتا رہے گا اور ہم سے مزید چھینتا رہے گا۔۔۔ ریڈ انڈین سرداروں کے ان افکار میں مغربی تہذیب کی وہ روح جھانکتی نظر آتی ہے جس نے کل کی طرح آج بھی انسانیت کو عظیم سانحات سے دوچار کررکھا ہے۔ مغرب کے جدید انسان کے غرور اور جہل مرکب نے جس طرح کل دنیا کو ناروا قوانین کے ذریعے شکار کیا تھا وہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جس طرح کل ریڈ انڈینز کو پیچھے کی طرف چلے جائو کا حکم دیا جاتا تھا فلسطین اور اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسی طرح آج بھی مظلوموں کو حقارت سے پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ ریڈ انڈینز کی طرح انسانوں کی اکثریت کو آج بھی تنگ دستی، بھوک، بیماری اور موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ مغرب کے اصول اور تعلیمات کل بھی صرف ان تک محدود تھیں آج بھی مادی سرمائے سے سرشار مغرب کے پیمانے اور قدر پیمائی باقی دنیا کے لیے کچھ اور ہے۔ باقی دنیا کے لیے مغرب کل بھی ناقابل اعتبار اور محرومیت کا باعث تھا آج بھی ایسا ہے۔

ریڈ انڈین سرداروں کی کچھ اور تقاریر ملا حظہ کیجیے

ہمارے آباء واجداد، ڈیلا وئیر کہاں گئے؟ ہم امید لگائے بیٹھے تھے کہ گورے پہاڑ عبور کرنا پسند نہ کریں گے اور ہم ان سے محفوظ رہیں گے۔ اب یہ امید ختم ہوچکی ہے۔ وہ لوگ پہاڑوں کو عبور کرکے چیرو کی زمینوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ بالآخر ہمارے اور ہمارے آباء واجداد کے تصرف میں رہنے والے سارے ملک کا مطالبہ کیا جائے گا اور اصل باشندے جو کبھی اس قدر عظیم اور ناقابل مزاحمت ہوا کرتے تھے کہیں دور دراز کے جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ (اسی پر بس نہیں ہوگا) پھر ایک دن انہیں ان ہی لالچ کے مارے مہمانوں کے جھنڈے پھر دکھائی دیں گے۔ یہ (مجوزہ) معاہدے بوڑھوں کے لیے تو ٹھیک ہیںجو نہ شکار کے قابل ہیں نہ جنگ کے۔ میرے پاس میرے نوجوان سپاہی موجود ہیں۔ ہم اپنی زمینیں واپس لیں گے۔ میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا تھا (چیروکی قبیلے کا سردار 1786)
٭ میں گورنر ہیریسن سے یہ نہیں کہوں گا کہ معاہدے کو چاک کردے ہاں یہ ضرور کہوں گا بھائی تم اپنے ملک واپس جاسکتے ہو۔ ہم ہندیوں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی زمینیں سب کی مشترکہ ملکیت سمجھنے دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ تم انہیں اس سے روکنا چاہتے ہو۔ تم قبائل کو الگ الگ کرکے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہو۔ ہندی قبائل کے درمیان یہ امتیاز قائم کرکے اور ہر قبیلے کو ایک خاص قطعہ زمین دے کرایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہو۔ تم انہیں مسلسل کھدیڑتے جارہے ہو۔ بالآخر تم انہیں جھیل تک سرکا دو گے جہاں نہ وہ رہ سکیں گے نہ کچھ کام کرسکیں گے۔ اس زمین کو فروخت کرنے اور اس کے بدلے چیزیں دینے والے چند لوگ ہی تھے لیکن آئندہ ایسا کرنے والوں کو ہم ضرور سزا دیں گے۔ اور اگر تم لوگ زمین خریدنے سے باز نہ آئے تو قبائل کے درمیان جنگ بھڑک اٹھے گی اور میں نہیں کہہ سکتا اس کے نتائج گوروں کے لیے کیا نکلیں گے۔
بھائی میری خواہش ہے کہ تم سرخ ہندیوں پر رحم کھائو اور میری درخواست پر عمل کرو۔ اگر تم نے زمین پر قبضہ نہ چھوڑا اور ہماری موجودہ آبادی کی حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی تو بہت سے مسائل جنم لیں گے۔ اس برائی کو روکنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ تمام سرخ ہندی اکٹھے ہو کر زمین پر مشترکہ حق کا دعویٰ کریں۔ کسی قبیلے کو زمین فروخت کرنے کا حق نہیں۔ جب ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے ہاتھ بھی زمین فروخت نہیں کرسکتا تو اجنبیوں کے ہاتھ کیسے فروخت کرسکتا ہے۔ تم کہتے ہو ہم زمین بیچ دیں کیا خیال ہے فضا، سمندر بھی نہ فروخت کردیے جائیں؟ کیا یہ سب روح عظیم نے اپنے بچوں کے استعمال کی خاطر پیدا نہیں کیا؟ ہم گوروں پر کیوں کر اعتماد کرسکتے ہیں؟
آج پیکو (قبیلے کے لوگ) کہاں ہیں؟ ناراگا نسیت، موہیکان، پو کانیت اور ہماری قوم کے دیگر طاقتور قبائل کیا ہوئے؟ یہ سب گوروں کے حرص اور ظلم کے باعث صفحہ ہستی سے بالکل اس طرح مٹ گئے جیسے گرما کے سورج کے سامنے برف پگھل جاتی ہے۔ کیا اب اپنی نسل کے شایان شان جدوجہد کیے بغیر مٹ جانے کی باری ہماری ہے؟ کیا ہم روح عظیم کی عطا کردہ زمین اور گھروں سے یوں ہی بغیر کسی مزاحمت کے دست بردار ہوجائیں گے؟ پرکھوں کی قبریں اور ہروہ شے جسے ہم قابل قدر اور مقدس گردانتے آئے ہیں ان کے حوالے کردیں گے؟ مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے ساتھ یک آواز ہوکر کہیں گے’’کبھی نہیں کبھی نہیں چو کتا اور چکا سکا قبیلے والو! امن کے دھوکے اور جھوٹی امیدوں سے باہر نکل آئو۔ جاگ جائو۔ کیا ہمارے آباء واجداد کی قبروں پر ہل چلاکر انہیں کھیتوں میں تبدیل کردیا جائے گا؟‘‘ (زمینوں کی خرید وفروخت پر1810میں کی جانے والی تیکو مسیہ کی تقریر)
٭ بھائیو ہم نے اپنے عظیم باپ (امریکی صدر) کی گفتگو سنی، نہایت رحمدلی کی گفتگو تھی۔ وہ اپنے سرخ فام بچوں سے بھی پیار جتاتا ہے۔ گورا جب پہلے پہل وسیع وعریض پانیوں کے پار سے یہاں پہنچا تو وہ نہایت منحنی اور کمزور ساتھا۔ اپنے بڑے سے جہاز پر مسلسل بیٹھے رہنے کے باعث اس کی ٹانگیں شل ہوچکی تھیں۔ وہ صرف چپہ بھر زمین کی بھیک مانگتا تھا۔ سرخ فام ہندیوں نے اسے زمین دے دی اور اسے آرام پہنچانے کے لیے الائو روشن کیے۔ ہندیوں کی آگ سے خود کو گرما لینے اور ان کے دلیے سے اپنا پیٹ بھر لینے کے بعد وہ ایک دم بہت قدآور ہوگیا۔ نہ تو یہاں پہاڑی چوٹیاں اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں نہ میدان اور نہ ہی وادیاں۔ مشرق اور مغرب کے سمندر اس کی دسترس میں آگئے۔ پھر وہ ہمارا عظیم باپ بن گیا۔ اسے اپنے سرخ بچوں سے پیار تھا۔ اس لیے وہ ہم سے کہنے لگا ’’تم لوگ پیچھے کی طرف چلے جائو اور وہاں اپنے لیے نیا ٹھکانہ ڈھونڈو کہیں غلطی سے میں تمہیں روند نہ ڈالوں۔ ایک پائوں سے اس نے سرخ فام ہندیوں کو اوکونی (جنوبی کیرو لینا) سے پرے کھدیڑا اور دوسرے پائوں سے اس نے ہمارے پرکھوں کی قبریں روند ڈالیں۔ ایک مرتبہ وہ یوں گویا ہوا: مزید آگے چلے جائو اور اوکملگی (جارجیا) سے بھی پرے نکل جائو وہاں بڑی خوبصورت جگہیں پائی جاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ کے لیے تمہاری ہو جائیں گی۔ اب وہ کہتا ہے: جس زمین پر تم رہائش پزیر ہو وہ تمہاری نہیں اب تم مس سیپی سے بھی آگے نکل جائو وہاں تمہیں زیادہ شکار ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا عظیم باپ وہاں بھی نہ آن پہنچے گا۔ میں اپنے عظیم باپ کی متعدد تقاریر سن چکا ہوں۔ ان کی ابتدا اور انتہا یہی رہی ہے: تھوڑے پرے ہٹ جائو۔ تم لوگ مجھ سے کچھ زیادہ ہی قریب ہو‘‘۔ (اسپیکلڈ اسنیک، کریک قبیلے کا بوڑھا سردار)
٭ دیکھو میرے بھائیو! بہار آگئی، زمین سورج سے بغل گیر ہوچکی اور جلد ہی ہم اس پیار کے پھل دیکھ لیں گے۔ ایک ایک بیج جاگ چکا ہے اور جانور بھی۔ ہماری بستی بھی اس پراسرار طاقت کی مرہون منت ہے اس لیے اس زمین پر رہنے کا حق ہم سب پڑوسیوں کو دیتے ہیں خواہ وہ جانور ہی کیوں نہ ہوں۔ اے لوگو! ہمارا پالا ایک مختلف نسل سے پڑا ہے۔ جب ہمارے پرکھوں نے انہیں پہلے یہاں دیکھا تھا تو یہ لوگ بہت کمزور اور منحنی سے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی طاقت اور جبر کی کوئی حد نہیں۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں کو زمین کاشت کرنے کا دماغ بالکل نہیں لیکن چیزوں کی ملکیت کی محبت ان میں ایک وباکی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ ان لوگوں نے بے شمار قوانین بنا رکھے ہیں جنہیں دولت مند جب چاہیں توڑ سکتے ہیں لیکن مفلس کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ ان کا مذہب ایسا ہے جس میں غریب تو عبادت کرتے ہیں لیکن امیر نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ غریبوں سے ٹیکس لے کر دولت مندوں اور حکمرانوں کو دیتے ہیں۔ وہ ہماری اس دھرتی کے مالک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پڑوسیوں کو اس سے دور رکھنے کے لیے باڑیں لگاتے ہیں اور اپنی عمارتوں اور فضلے سے اس کا چہرہ بگاڑتے ہیں۔ یہ قوم ایک ایسے سیلابی ریلے کی مانند ہے جو کناروں کو توڑ کر راستے میں آنے والی ہر شے کو فناکرتا جاتا ہے۔ (سیو قبیلے کے سردار یاتانکا توتانکا عرف سیٹنگ بل)
٭ گوروں کو ہمارے بزرگوں نے پہلی بار ستر سردیوں پہلے دیکھا تھا۔ اس کی غربت کو دیکھتے ہوئے ہم نے اسے کھلایا پلایا۔ اس کی قدر کی۔ اپنے یہاں کے گھاٹیوں اور گھاٹوں کی سیر کرائی۔ اس نے کیا کیا؟ ہماری ہڈیوں سے قبریں بھردیں۔ اس کا تو راستہ ہی تخریب اور انہدام کا ہے۔ جس روح عظیم نے ہمیں یہ دیس عطا کیا اس کی بنائی ہوئی ہر خوبصورت اور صاف چیز کو یہ آلودہ کردیتا ہے۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین کی بدولت ہمیں ایک تنکا، درخت، بطخ، ہنس یا مچھلی تک نہیں ملی۔ جب تک وہ زندہ ہے آتا رہے گا اور ہم سے مزید چھینتا رہے گا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی نجات کی خاطر ایک کنواری کا بچہ مصلوب کردیا گیا تھا۔ کاش اس بچے کے ساتھ سب گورے بھی مرگئے ہوتے تو ہم بھی آج محفوظ ہوتے اور ہمارا دیس ہمارے پاس ہی رہتا (سردار شارلٹ 1876).

۔ رومن امپائر نے عیسائیت قبول کرنے کے باوجود یورپ اور اطراف کے ممالک کے 80فی صد قبیلوں کا قتل عام کیایا انہیں غلامی میں لیا۔ ڈھائی سو سالہ مقدس صلیبی جنگوں میں روم سے لے کر فلسطین تک راستے میں پڑنے والے تمام شہروں کو جلا کر خاک اور انسانوں کو قتل کردیا۔ امریکا اور مغرب نے انسانیت کے خلاف جو بھیانک جرائم کیے ہیں ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف بیسویں صدی میں اہل مغرب نے دنیا بھر میں 33کروڑ انسانوں کو قتل کیا اور 17کروڑ انسانوں کو بھیانک سزائیں دیں۔ (انسائیکلو پیڈیا آف وائلنس یا کیلی فورنیا: پروفیسر مائیکل مین) پروفیسر مائیکل مین کی دیگر کتابوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 122قبل مسیح سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک تقریباً تیس کروڑ چالیس لاکھ انسان قتل کیے گئے۔ یورپی غلبے کے بعد صرف افریقی باشندوں کو پکڑ پکڑ کر جہاز بھر بھر کر غلام بنانے کے سلسلے میں ایک کروڑ ستر لاکھ انسان قتل کیے گئے۔
امریکا کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق امریکی مسلح افواج نے 1776ء سے لے کر 2010 تک دوسو بیس مرتبہ مختلف ممالک کے خلاف جنگیں لڑی ہیں۔ گویا دوسو چونتیس سال میں دوسو بیس جنگیں۔ اقتصادی اور سیاسی دبائو کے ذریعے دنیا کے ممالک میں جو تبدیلیاں لائی گئیں وہ الگ ہیں۔ صرف امریکا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 170ملین (17کروڑ) ہے۔ امریکا نے ایک سو ملین ریڈ انڈین (10کروڑ) 60ملین (6کروڑ) افریقی باشندوں، 10ملین (1کروڑ) ویت نامیوں، ایک ملین (10لاکھ) عراقیوں اور تقریباً نصف ملین (5لاکھ) افغانیوں کو قتل کیا ہے۔ ان سب کو ملایا جائے تو 171.5ملین (17کروڑ 15لاکھ) انسان بنتے ہیں۔
انسانیت کے خلاف حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیاروں کا استعمال سب سے پہلے بر طانیہ اور امریکا نے کیا۔ 1756-1763 فرانسیسیوں نے ریڈ انڈینز میں ایسے کمبل تقسیم کیے تھے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے۔ ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ ہنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے تھے۔ ایڈز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے جراثیم فورٹ ڈسٹرکٹ میری لینڈ کی فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے گئے۔
آج ہم مغرب کی مادی تہذیب کے غلبے کے زمانے میں زندہ ہیں۔ اس تہذیب کی عمارت ریڈ انڈینز اور نہ جانے کن کن قوموں کی تہذیب کے ویرانوں اور لاشوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ باقی دنیا آج بھی امریکا اور مغربی ممالک کے لیے ریڈ انڈینز کی مثل ہے۔ نجانے کہاں کہاں وہ بے گناہ اور معصوم لوگوں کو اتنی ہی بے رحمی سے قتل کررہے ہیں۔ کروز میزائلوں، ڈیزی کٹر اور کلسٹربموں سے معصوموں، بے گناہوں، بے کسوں اور لاچاروں کی جان لے رہے ہیں۔ ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں ہر روز ریڈ انڈینز کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ مہلک ہتھیار پوری قوت کے ساتھ خطرناک تعداد میں بلندی سے گرائے جارہے ہیں جن سے انسان مررہے ہیں، معذور اور اپاہج ہورہے ہیں گل سڑ رہے ہیں۔ بمباری سے تباہ ہونے والے گھروں کے اندر سردی بھوک اور پیاس سے مرنے والے مکین، بارودی سرنگوں کا شکار بننے والے، بھوک اور دھماکوں سے جاں بحق ہونے والے مہاجرین، ٹارچر کیمپوں میں سسکتے اور امریکی ایجنسیوں کے ذریعے سزائے موت پانے والے ان کے علاوہ ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ میڈ لین البرائٹ سے ایک ٹی وی انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق عراق میں اب تک نصف ملین بچے مر چکے ہیں اور یہ تعداد ہیروشیما میں مرنے والے بچوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ کا خیال ہے کیا ایسا ہونا چاہیے تھا؟ جواب میں میڈلین البرائٹ نے بھنویں اچکاتے ہوئے لا پروائی سے کہا ’’گو کہ یہ ایک سخت راستہ تھا لیکن میرے خیال میں ایسا ہی ہونا چاہیے تھا‘‘۔






Related News

بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر

Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *