سہولتکاری قابضين کی وقتی تسکين ، کبھی کام نہيں آ سکتی؛ تحرير: عثمان افسر
باقی تو خیر لیکن حریت کانفرس اور اس جیسی دیگر جماعتوں اور لوگوں کے ترلے اور خط بھی انکے کام نہ آئے جنہوں نے شروع سے آجتک پاکستان کی سہولت کاری کی ۔ جنہوں قومی آزادی کی جنگ کو ایک پراکسی اور مذہبی جنگ میں بدلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کی بحالی پر یقین رکھنے والوں کو فتنہ پرور گردانتے ہوئے فتوے صادر کیے ، جنہوں نے اپنے کئی نوجوان پاکستانی جھنڈے میں دفنائے ۔
لیکن آج پاکستان نے عملاً انکی قبروں کو روند دیا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ یہ رشتہ صرف حاکم و محکوم کا ہے۔ایسا ہی اُس پار ہندوستان کے سہولتکاروں کے ساتھ ہوا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے قوانین لاگو کروانے والے فاروق عبداللّہ اُسی ایکٹ کا نشانہ بنے ہندوستانی ترنگے کو سلامیاں دینے والی محبوبہ مفتی صاحب آج ہندوستانی جھنڈا قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ اپنی شناخت ختم ہوگئی جسکے بغیر انکی حثیت کچھ نہیں ۔
آج پی ڈی پی اور این سی سمیت سب ایک نقطے پہ جمع ہورہے ہیں کہ ریاست کی خصوصی حثیت بحال کی جائے حالانکہ انکا مسئلہ عوامی مسائل مشکلات یا آزادی نہیں بلکہ دکانداری ہے جو شناخت کے بغیر چل نہیں سکتی۔ سمجھ تو سبکو آگئی ہے کہ سہولت کار صرف وقتی تسکین کے لیے ہوتے ہیں اور اس طرف کے سہولتکاروں نے چار اکتوبر سے یہ سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے ۔
چار اکتوبر کو بننے والی انقلابی حکومت ایسی عظیم الشان انقلابی تھی کہ اپنی ریاستی تقسیم کا پہلا زینہ بنی اس انقلاب کی آج سمجھ تو آرہی ہوگی اسکو انقلابی حکومت کہنے والوں کو۔ پھر معائدہِ کراچی کے غازیانِ ملت کو آج کچھ تو اندازہ ہورہا ہوگا کہ کیاحثیت ہے اس معائدے کی۔ گلگت بلتستان کے حقوق کی بات ہورہی ہے جبکہ پہلا سوال ہی یہ ہے کہ یہ حقوق غصب کس نے کیے تھے ؟ہندوستان کے ظلم و جبر کا بازار تو لکیر کے دوسری جانب گرم ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں گلگت بلتستان سے باشندہ ریاست قانون کس نے ختم کرکے آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی بنیاد رکھی تھی ؟ پھر ایک جملہ دہائیوں سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق(گو کہ ان میں بھی ہیر پھیر کروایا) کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت میں ہمیشہ کھڑا ہے جبکہ وہ تو کچھ اور کہتی ہے اسکے مطابق آپکو پہلے نکلنا ہے اور گلگت بلتستان اسکا حصہ ہے ۔
نکلنا تو دور کی بات ہندوستان کو بھی پکڑ پکڑ کر راستہ دکھایا کہ قبضہ ایسے ہوتاہے ۔
بہرحال اب پورے جموں کشمیر کے لیے تصویر بلکل واضح ہوجانی چاہیے ۔ عقیدت کی اندھی پٹی اب پھٹ جانی چاہیے ۔
مقبول بٹ شہید کے الفاظ کہ میدانِ جدوجہد منافقین کو انکے مقام پر لاکھڑا کرتا ہے حرف بحرف سچ ثابت ہورہے ہیں۔ پوری دنیا کے حالات مدنظر رکھتے ہوئے جہاں ہرطرف نئی صف بندیاں ہورہی ہیں جموں کشمیر کے عوام کو بھی نئی صف بندیوں کی ضرورت ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More