آہ ! گللگت بلتستان ! پاکستان کا پانچواں صوبہ ؟ تحرير: ہاشم قريشی
آخر گلگت بلتستان کو پاکستان میں صوبہ بناکر ضم کردیا گیا ۔مگر ہم ریاستی لوگ خیران و پریشان تماشہ دیکھ رہے ہيں اور گلگت و بلتستان کے کچھ لوگ خوشیاں مُنا رہے ہيں کہ ” ہمارا مطالبہ مان لیا گیا ہے اور ہمیں متنازعہ سے پاکستانی کی شناخت مل گئی ہے ۔
ہمارا شور شرابہ صرف “سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنا” کے مصداق ہے ۔ ہمارا کردار پیچھلے 75 سالوں سے “گُرگٹ ” کی طرح رنگ بدلتے ہی گزر گئے ۔ہم نے قبائیلوں کے ساتھ ریاست کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اپنے ہی ہم وطنوں کو ہندو،سکھ اور عیسائی ہونے کے جرم میں پاکستانی ریگولرز اور قبائیلیوں کے ساتھ ملکر لوٹا ،گھروں سے نکالا، عصمت دریاں کی اور جائیدادوں کو مال غنیمت سمجھ کر قبضہ کیا اور یہاں تک کہ دوسرے مذہب کی خواتین کو بھی مال غنیمت جان کر گھروں میں ڈال دیا۔
پورا جموں کشمیر تو پاکستانیوں کو فتح کرکے نہ دے سکے مگر جو حصہ ریاست کا کاٹ لیا اُس کو “آزادکشمیر ” کہہ دیا کوئی مجاہد اوّل بنا اور کوئی غازی ملت اور کوئی کچھ اور کوئی کچھ بنا اور ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر شرمندہ ہونے کے بجائے “ہیرو کہلانے پر بضد رہے “۔
ریاست کے ایک بڑے حصے گلگت بلتستان کو ان ہی ” مجاہدوں اور غازیوں “نے پاکستان کے حوالے کیا ۔ جیسے یہ ریاست کا حصہ نہ ہو ان کے باپ کی جاگیر ہو۔
پاکستانیوں نے انگریزوں کی طرح کراچی اور اسلام آباد سے ریذڈنٹ گلگت بلتستان کے مظلوم لوگوں پر حکومت کرنے کے لئے روانہ کرتے رہے اور انسانی حقوق تو دور کی بات ہے جانوروں جیسا سلوک بھی روا نہ رکھا گیا ؟ کالے قوانین کے تحت یہ مظلوم ظلم سہتے رہے 25/30سالوں تک نمک لوگوں کے لئے “سوغات ” کہلائی کیونکہ زمینی راستہ تھا ہی نہیں نہ پاکستان سے اور نہ نیلم ویلی سے ۔
پاکستان نے شیعہ سُنی کو ایک دوسرے سے قتل کرایا اور کشمیری کو گنجا کشمیری کہہ کر سانپ کو بخشنے مگر کشمیری کو مارنے کی تعلیم دے دی؟ آزاد کشمیر اور جموں کشمیر سے زمینی اور جغرافیائی رشتوں سے دور رکھا ہی گیا مگر گلتگت بلتستان کے لوگوں میں باقی ریاستی لوگوں کے خلاف زہر بھرتے رہے اور پاکستان کا صوبہ بنانے کے خوآب آج تک دکھاتے رہے۔کیونکہ تاریخی حقیقت سے منحرف ہوکر پاکستان کا صوبہ بنانے کی جدوجہد بھی ان لوگوں نے کی ۔
پاکستان نے پوری ریاست سے عملی اور جذباتی طور پر ان لوگوں کو الگ کیا اور کراچی معاہدے کو نفرت کا پہانہ بنایا اور یوں اپنی کالونی بنانے کے عزائم کو تقویت دیتے رہے۔ سٹيٹ سيبجيکٹ کا قانون بھی ختم کرکے پاکستانی شہریوں کو پورے گلگت بلتستان میں بسایا۔
گلگت بلتستان کے لوگ مزدور اور کلرک ہی بنے رہے۔اپنے حقوق اور اپنی زمین کا تحفظ کرنے پر لوگوں کو جیلوں میں 40/90 / 30 سالوں کی سزائیں دے کر بند کیا ۔ گلگت بلتستان کے جوانوں پر مشتمل گلگت انفینٹری کے نوجوانوں کو کارگل جنگ میں قربان کیا اور لاشیں بھی واپس نہ لی۔ پاکستان نے گلگت بلتستان کے تمام وسائل پر قبضہ کرکے لوگوں کو بدترین غلامی میں مبتلا رکھا ۔
آج گلگت بلتستان کو ہندوستان کے 5 اگست 2019 کے اقدام کی نقل کرکے ناجائز، غیر قانونی اور ریاست کو تقسیم کرنے کی سازش میں پاکستان عملی طور پر کھلے عام غاصب کی شکل میں اُن لوگوں کے سامنے ننگا ہوگیا۔ “جو جذبہ مسلمانی کے تحت پاکستان کو دوست یا وکیل سمجھتے تھے ” “وکیل نے کیس لڑنے کے بجائے ہمارے وسائل فیس کی صورت میں اور پوری زمین حق ملکیت کے تحت غصب کرليے۔تقسیم کی سازش آپ کو آج نظر آرہی ہے مگر اس ریاست کو آج ٹکڑوں میں تقسیم کرنا اور کرانے کی زمہ دار کو ہم آج تک نہ پہچان سکے ۔
ہماری ریاست جموں کشمیر جو انگریزوں کے ہندوستان سے چلے جانے کے فیصلے کے ساتھ ہی 14/15 اگست 1947 کو انڈیا اور پاکستان کے ساتھ آزاد ہوگئ تھی ۔جس کا اپنا مہاراجہ تھا۔اپنی فوج تھی اپنا سسٹم تھا اور ہم جمہوری نظام کی جدوجہد کررہے تھے اور 1934 میں مجلس شوری بھی تشکیل دی گئ تھی مگر آو ملکر ماتم کریں 22 اکتوبر کے دن کا کہ کہ ہماری ریاست پر ہمارے ہمسایہ نے جوں کا توں معاہدہ کرنے کے باوجود قبائلیوں کے بیس میں اپنے فوجیوں اور برگیڈیر آکبر خان (جو بعد میں جنرل بنگیا تھا ) کی سربراہی میں ہماری ریاست پر حملہ گرایا اور مہاراجہ کو ہندوستان سے مدد مانگنے کے لئے مجبور کیا اور یوں مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا۔
یوں ہماری آزاد ریاست میں دو ملکوں کی فوجیں آئی اور ہمارے وطن کی جھیلوں ،ندی نالوں ،خوبصورت آبشاروں۔پہاڑوں اور باغوں کو زنجیریں پہنائی گئی! ہمیں ہندو۔سکھ۔اور مسلمان میں بانٹ دیا گیا۔ ہم میں سے کچھ کو “آزاد کشمیر ” کے سیرآب میں مگن رکھا اور کچھ کو گلگت بلتستان کو پاکستانی صوبہ بناکر دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کے وعدے میں سبوں کو نفرت اور تعصب میں مبتلا کیا ۔ مگر انجام تو میرے دیس کے ٹکڑے ہی تو ہوئے نا ۔
ہم دیر سے اپنی ریاست کے خاتمے کی سازش سمجھ گئے ہيں ۔ جب ہمیں تقسیم کرگئے سازش کرکے حملہ پہلے ریاست پر کس نے کیا ؟ اقوام متحدہ میں حق خود ارادیت کے بجائے الحاق کی قرار داد کس نے پیش کی ؟ گلگت بلتستان اور “آزاد کشمیر ” کے لوگوں کو غربت، غلامی اور اقتصادی بربادی کا شکار کس نے بنایا کہ ” ہم نے پہلے ہندو سے جموں کشمیر لینا ہے ” پھر آپکو بجلی،کالج،پانی،روزگار ،علاج ،تعلیم ، اسپتال دینگے؟ مگر ہمیں کچھ نہیں ملا سوائے وطن کے ٹکڑے ٹکڑے ہمارے سامنے ہورہے ہيں۔
غلامی کا دور بہت ساری قوموں پر آیا ہےاور کھبی غلامی کی راتیں بہت اندھیری بھی گزری ہيں مگر نام کی ہی سہی سب قوموں نے آزادی حاصل کی ہے کیونکہ قوموں کے دلوں میں جذبہ آزادی زندہ تھا۔ سوچ اور نظریات اُن قوموں کے زندہ ہوتے ہيں جن کو آزادی چاہئے ۔اتحاد ہوتا ہے مگر ہم میں نہ ہی جذبے زندہ ہے ،نہ نظریات سے وفادار ہے اور نہ ہی ہمارے درمیان اتحاد ہے ۔ ہم میں سے بہت غاصبوں کے سہولت کار بھی بنے ہوئے ہيں۔
ریاست کو غاصب چاہئے جتنے بھی ٹکڑے کریں سوال یہ ہے کہ کیا ہم ریاست کے سب باشندے ریاست کو دوبارہ متحد کرکے انمٹ اور بے لوث محبت کے ساتھ وطن کو دوبارہ زندہ اور شاد باد کرنا چاہئتے ہيں؟
بہت ہے ظلم کے دست و بہانہ جُو کے لئے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہيں
بنے ہيں اہل ہوس مُدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہيں ؟
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More