نام نہاد چوکیدار کو سونے دو ؛ تحرير: امتياز احمد شيراز
کل مورخہ ۳۰اکتوبر ۲۰۲۰ کو تیتری نوٹ سیز فائر لائن سے دھرمیندر سنگھ نامی ایک جاسوس پکڑا گیا۔ جس کو خونی لائن یعنی سیز فائر لائن عبور کرواتے ہوئے ہندوستانی غاصب فوج نے سول آبادی پہ فائرنگ شروع کر دی جسکا مقصد یہ تھا کہ سول آبادی فائرنگ سے بچنے کے لئے گھروں کے اندر چلی جائے گی اور وہ جاسوس آسانی سے گاؤں میں داخل ہو جائے گا۔
چوکیدار کی چوکیداری اور اسکی اہلیت اور اسکے کام سے یہ لوگ واقف تھے کہ چوکیدار کے دو ہی کام ہیں۔ ایک سیاست کرنا اور دوسرا اپنے ہی لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنا۔ اس لئے انکے پئے مسئلہ سول چوکیدار تھے نہ کہ وردی میں ملبوس چوکیدار۔
وہ اپنی اس چال میں کسی حد تک کامیاب ہو بھی گئے تھے لیکن اس جاسوس کئ بدقسمتی کہ وہاں قریب گاؤں کا ایک آدمی کھڑا انڈین غاصب فوج کی پوسٹ کے قریب سے آتے ہوئے ائک آدمی کو دیکھتا ہے۔ جو ہاتھ میں کچھ اٹھائے خونی لائن عبور کر رہا ہے۔ اور اسکو سیف کور فائر دیا جا رہا ہے۔
انڈین غاصب آرمی کی پوسٹ کے بلکل سامنے پاکستانی مسلمان غاصب آرمی کی پوسٹ اور اس میں موجود میرے بہادر اور جری جوان شاید تاش کھیلنے میں مصروف تھے یا کہیں باجوہ صاحب کی کامیابیوں پہ انہیں داد دے رہے تھے۔ انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ دن دیہاڑے ایک جاسوس انڈین پوسٹ سے نکل کر گاؤں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
بہرحال گاؤں کے اس آدمی نے اسکا انتظار کیا اور جب وہ آدمی قریب آیا تو اسکو دبوچ لیا۔
جب اس سے اسکا تعارف پوچھا گیا تو اس نے جیب میں سے کچھ ٹیبلٹس نکال کر کھانے کی کوشش کی لیکن اس آدمی نے اس کئ اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
اسکے بعد اس آدمی نے اسکو پکڑ کر چوکیدار کے حوالے کرنے کے لئے چوکیدار کے دربار کا راہ لی۔ جب چوکیدار کے گیٹ پر پہنچا تو چوکیدار کے گیٹ بند تھے۔ اس نے آوازیں دیں۔ گیٹ کو ہلا ہلا کر قریب گھروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگا دیا لیکن میرے چوکیدار کی آنکھ نہیں کھلی۔
بہرحال کسی نہ کسئ طرح اس آدمی نے چوکیدار کو کچی نیند سے اٹھایا اور اس انڈین جاسوس کو انکے حوالے کیا۔
واپس آتے ہوئے میرے چوکیدار نے اس آدمی کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ کسئ کو یہ مت بتانا کہ اس جاسوس کو آپ نے پکڑا۔
بلکہ یہ کہنا کہ سوئے ہوئے چوکیدار نے جان پہ کھیل کر اس جاسوس کو گیٹ سے سول آدمی سے وصول کیا۔
اس چوکیدار کے چرچے صبح شام ہیں۔ کہ یہ چوکیدار نہ ہو تو انڈیا اس وقت تک کشمیر کو اور کشمیریوں کو ہڑپ چکا ہوتا۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ مقامی سویلینز نہ ہوتے تو انڈیا کب کا ان چوکیداروں کو ہڑپ چکا ہوتا۔
خدارا جھوٹ بولنا بند کیجئے۔
تم نکمے ہو۔ نٹھلے ہو۔ ناکارہ ہو۔
تم نہتے لوگوں کو اٹھانا اور پھر انہیں مارنا جانتے ہو۔
جس کام کی تم اپنے لئے منادی کرواتے ہو وہ کام نہ تم کر سکتے ہو اور نہ سے کبھی ہوا۔ بنگال اسکی زندہ مثال ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More