سِٹی آف جوۓ (City Of Joy) کانگو کی خانہ جنگی پر مبنی رونگٹے کھڑے کرنے والی ڈاکومينٹری؛ انتخاب : حبيب الرحمٰن
کانگو کی 25 سالہ خانہ جنگی پر بنی رونگٹے کھڑے کرنے والی خوشياں کا شہر“ سٹی آف جوۓ” ڈاکیومینٹری ہمارے سیاسی ورکرز، سیاسات کے شاگردوں، سوشل ، میڈیا ورکرز کو ضرور دیکھنی چاہیے. یہ ڈاکیومینٹری بیلجیئم کی سابقہ کالونی کانگو- جو سونے تانبے، یورینیم کے ذخائر میں دنیا کا امیر ترین ملک ہے. اس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ننگے کھیل پر مشتمل ہے اور اس کھیل میں تیس چالیس وہ جنگی گروپس بنائے گئے جن کی ساری بھرتی غریب طبقے کے افراد سے کرکے جنگ کا ایندھن بنایا گیا اور وہ پرائیویٹ فوجی یہ کہتے رہے کہ ہمارے پاس فقط گن ہے۔ اب ہم روٹی بھی کھا سکتے ہیں اور ریپ بھی کرسکتے ہیں۔
ڈاکیومینٹری میں ان ریپ زدہ عورتوں کی کہانیاں ہیں جنہیں حاملہ کیا گیا اور ریپ کرنے کے لیے بار بار اٹھا کر لاتیں مار کر پیٹ میں بچے مارے گئے ان کی آنکھوں کے سامنے عزیزوں کے جنسی اعضاء کاٹ کر آنکھیں نکالی گئیں اس صورتحال میں ان عورتوں کو ٹراما سے کیسے نکالا جائے؟
یہ ہی سوال تھا نوبیل انعام یافتہ گائناکولاجسٹ ڈاکٹر ڈینس مکویگ اور ہیومن رائٹس کارکن مام کرسٹائن شلر کے سامنے کہ اب جو عورتیں ریپ کی وجہ سے عمر بھر ناخوش یا مایوس رہتی ہیں انہیں جوائے یعنی خوشی دینی تھی۔
شہر بوکاوُو کے نواح میں ان عورتوں کی مدد اور لیبر سے سٹی آف جوائے آباد کیا گيا جو ریپ زدہ عورتیں اس جنگ میں اپنی عزت کے ساتھ فوجی بھیڑیوں کے ہاتھوں اپنی وجائنا، مثانے اور ریکٹم کھو چکی تھیں َ ڈاکٹر نے چالیس ہزار ریپ زدہ عورتوں کو اس ہسپتال سے طبی مدد فراہم کی۔ اس خانہ جنگی میں ہاسپیٹلز پر حملے کرکے مریضوں کو فوجی مار دیتے تھے وہی لڑاکو ريپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے، جنسی دہشتگردی کرتے تھے۔ ڈاکٹر نے پانزی ہسپتال میں ایسی ہزاروں عورتوں کو آپریشن کرکے بچایا جن کے جنسی اعضاء وردی پوش ملیشیا کے سپاہیوں نے زخمی کردیئے تھے اور ایک عورت پر سات سات بندوق بردار چڑہتے رہے ۔
کانگو کی اس جنگ میں سارے پاورفل ملک ملوث ہوگئے تھے جو یہ گڑبڑ کراکے ساری معدنی ذخائر کی کانوں پر کنٹرول چاہتے تھے. پوری دنیا سے ملٹی نیشنل کمپنیاں کارپوریشنز کانگو کے ذخائر کو ہتھیانا چاہتی تھیں یہ کمپنیاں بیلجیئم، برونڈی، کئناڈا چین، فن لینڈ، فرانس جرمنی گھانا ہانگ کانگ اسرائیل کازقستان ملائیشیا نیدرلینڈز روانڊا، ساؤتھ افریقہ ، سوئٹزرلینڈ تھایی لینڈ یوگنڈا عرب امارات، امریکا برطانیہ زمبابوے کی تھیں۔
لیکن ہوا یہ کہ کمپنیاں اور کارپوریشن کانگو کے جغرافیہ سے ناواقف تھیں اور راستوں جنگلوں کی معلومات نہیں رکھتی تھیں لہذا انہوں نے مقامی بااثر افراد، رئیس وڈیروں. سرداروں کی مدد لی اور مقامی لوگوں کی فورسز بنانا شروع کردیں ۔ حالت یہ ہوگئی تیس تیس لڑاکا گروپس کمپنیوں کی اسپنسارشپ سے ایک دوسرے کے سامنے آگئے اب کانگو کے عوام کو یہ معلوم نہیں تھا کون کس کے لیے کام کر رہا ہے۔ کیا آرمی ہے؟ اور کیا آرمی نہیں ہے ؟ ملیشیا ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر ان گاؤں میں استعمال کرتی تھی جو معدنی ذخائر کے کانوں کے نزدیک یا اردگرد تھے۔ وہ آکر بچیوں کو، جوان اور بوڑھی عورتوں کو ریپ کرتے تھے اور نتیجتاً گاؤں دہشت و خوف سے خالی ہوتے جاتے تھے اور علاقہ خالی ہونے سے کمپنیوں کا کام آسان ہو جاتا تھا۔
اس ڈاکیومینٹری میں جو خاص بات فوکس کی گئی ہے وہ ہے ان ریپ کی ہوئی عورتوں کو خودکشی کے خیال سے بچا کر ان کا اعتماد بحال کرانا۔ ریپسٹ سے مزاحمت کی تربیت دینا اور ان کی تعلیم و تربیت کرکے واپس سوسائٹی میں ان عورتوں کو لیڈرشپ کارول دینا۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More