Main Menu

ایف اے ٹی ایف کا تين روزہ اجلاس، پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ

Spread the love

منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد کی روک تھام کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو بدستور زیرِ نگرانی یعنی ‘گرے لسٹ’ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

ایف اے ٹی ایف کے مطابق اب پاکستان کو فروری 2021 تک ان تمام سفارشات پر عمل کرنے کا وقت دیا گیا ہے جن پر تاحال کام نہیں ہو سکا۔

اس بات کا فیصلہ ادارے کے تین روزہ اجلاس میں کیا گیا جو جمعے کو اختتام پذیر ہوا۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے یہ اجلاس آن لائن منعقد کیا گیا تھا۔

اجلاس کے دوران پاکستان کے حکام کی طرف سے دہشتگردی میں ملوث گروہوں کے خلاف اب تک کی جانے والی کارروائی اور انھیں معاشی مدد فراہم کرنے والے اداروں اور افراد کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا جائزہ لیا گیا۔

ایف اے ٹی ایف کے سربراہ مارکس پلیئر نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو ادارے کی جن 27 سفارشات پر عملدرآمد کے لیے کہا گیا تھا ان میں سے 21 سفارشات پر عمل ہو رہا ہے تاہم جب تک پاکستان باقی چھ سفارشات پر عملدرآمد نہیں کرتا اس کا درجہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یقیناً اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے لیکن اسے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ رک نہیں سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ اس وقت تک نہیں ٹلا جب تک وہ ان چھ اہم سفارشات پر عملدرآمد نہیں کر لیتا جن پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے فیصلے سے قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ادارے کو پاکستان کے اقدامات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کے لیے گنجائش نکالنی چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ‘ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو 27 اقدامات کرنے کا کہا تھا جس میں سے 21 پر سو فیصد عملدرآمد ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بقیہ چھ اقدامات رہ گئے ہیں حکومت ان پر بھی کام کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہو کے ایف اے ٹی ایف کو اس کو اقدامات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔’

پاکستان کی کوشش ہے کہ اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے لیکن اس کی یہ کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں جبکہ انڈیا کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے کیونکہ انڈیا کا الزام ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی روک تھام اور اس کی مالی اعانت کو روکنے کے اقدامات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔

اس بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ایک چیز بڑی واضح دکھائی دے رہی ہے کہ انڈیا کے پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کے جو عزائم تھے اس میں وہ ناکام ہو گا۔ دنیا آج پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں اٹھائے گئے ٹھوس اقدامات پر قائل ہو چکی ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان نے ایف اے ٹی ایف سے متعلق منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے معاملات کو جانچنے کے لیے موجودہ حکومت اور پارلیمان نے جو قانونی سازی کی ہے اور انتظامی اقدامات اٹھائے اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔‘

پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے اکتوبر 2019 تک کا وقت دیا گیا تھا جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ دی گئی اس مہلت کے دوران ضروری قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے ایک موثر نظام تیار کر لے گا۔

فروری 2020 تک پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات میں سے صرف 14 پر عمل کیا تھا اور باقی رہ جانے والی 13 سفارشات پوری کرنے کے لیے اسے مزید چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔

اکيس سے 23 اکتوبر 2020 تک ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کی طرف سے منی لانڈرنگ کا جائزہ لینے والے ایشیا پیسیفک گروپ کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈولپمنٹ کی عمارت جہاں ایف اے ٹی ایف کا دفتر قائم ہے

گيارہ اکتوبر کو (اے پی جی) کی ایک رپورٹ (ایم ای آر) میں پاکستان کو ’اِنہانسڈ فالو اپ‘ فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ اے پی جی کے مطابق ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنناسنگ کی روک تھام میں کوئی خاص پیشرفت نہیں کی ہے۔

اے پی جی، ایف اے ٹی ایف سے منسلک ایک ادارہ ہے جو خطے میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسی طرز کے ذیلی ادارے یورپ، جنوبی امریکہ اور دیگر خطوں میں بھی ہیں۔

اے پی جی میں خطے کے مختلف ممالک شامل ہوتے ہیں جو ادارے کو وقتاً فوقتاً سفارشات دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایف اے ٹی ایف کی فہرست میں شامل ممالک کی پیشرفت سے متعلق آگاہ بھی کرتے ہیں۔

اے پی جی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات پوری کرنے میں مصروفِ عمل ہے اور ٹیرر فننانسنگ کی روک تھام کے لیے 15 معاملات پر قانون سازی بھی کر چکا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چند سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ادارہ پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں کیے جانے والے اقدامات سے زیادہ مطمئن نہیں۔

ان سفارشات پر عملدرآمد کی بنیاد پر ہی ایف اے ٹی ایف کسی ملک کو گرے یا بلیک لسٹ میں شامل رکھنے یا نکالنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام سنہ 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کیے جائیں۔

اس تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا بھی شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔

سنہ 2000 کے بعد سے ایف اے ٹی ایف وقتاً فوقتاً ایک فہرست جاری کرتی ہے، جس میں ان ملکوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں جو اس کے خیال میں کالے دھن کو سفید کرنے اور دہشت گردی کی مالی پشت پناہی سے روکنے کی سفارشات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔

اس وقت دنیا کے 18 ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔

گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔

کسی ملک کو انہانسڈ فالو اپ لسٹ میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی گرے لسٹ میں شمولیت کے بعد اس ملک کی پیشرفت غیر تسلی بخش ہونے پر مانیٹرنگ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔

اس بارے میں بی بی سی کی سحر بلوچ سے حال ہی میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیرِ مملکت اور چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ ہارون شریف نے کہا تھا کہ ’اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ انہانسڈ فالو اپ لسٹ سے معمولی مانیٹرنگ پر آ جائے اور ریگولر مانیٹرنگ پر جانے کے بعد اگلا مرحلہ گرے لسٹ سے باہر نکلنے کا ہو گا۔‘

اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے ایک ترجمان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اس فہرست سے نکلنا اتنی جلدی اس لیے ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔‘

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اس فہرست سے نکلنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کوئی ملک قرضہ دے رہا ہے یا کاروبار کر رہا ہے تو وہ سود کی شرح زیادہ لگائے گا جس سے پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھ جائے گا۔ اس وقت اس فہرست سے نکلنا ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔

بشکريہ: روزنامہ سنگر آن لائن






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *