Main Menu

اکتوبر اور ہمارا خطہ ؛ تحریر : رضوان کرامت

Spread the love

ریاست جموں کشمیر کی عوام بالخصوص نوجوان طلباء و طالبات کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس تاریخی حقیقت سے واقف ہوں کہ اکتوبر 1947 میں ریاست جموں کشمیر کو کن قوتوں نے تقسیم کیا اور اس سے انھوں نے اب تک کیا مفادات حاصل کیے ہیں. اگر ہم اکتوبر 1947 سے پہلے کی ریاست جموں کشمیر پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو وہ ایک جاگیردارانہ ریاست تھی. جس کا سربراہ مہاراجہ ہوتا تھا. ریاست اور یہاں بسنے والے لوگوں کا آپس میں تعلق بالکل وہی تھا جو ایک جاگیردارانہ ریاست میں ہوتا ہے. یہاں کے عام آدمی کے پاس کسی قسم کے سیاسی, سماجی اور معاشی حقوق نہ تھے بلکہ ریاست کی جانب سے بیگار بھی لی جاتی تھی. ایسے بے جا ٹیکس لگائے جاتے تھے کہ ریاست کے باشندے تنگ آ کر ریاست چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے تھے. مہاراجہ کے ظلم و ستم کے خلاف مختلف اوقات میں بغاوتیں بھی ہوتی رہتی تھیں. جنھیں جبراً کچل دیا جاتا تھا۔
ستمبر 1947 کے پہلے ہفتے کو پاکستانی فوج کے ایک آفیسر میجر جنرل اکبر خان نے مری کے مقام پر,, کشمیر کے اندر مسلح بغاوت,, کے عنوان سے ایک فوجی منصوبہ تیار کیا. ستمبر کے وسط میں پاکستان کے وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں اس منصوبہ کی منظوری دی گئی. لیکن اس سے پہلے کہ اس منصوبے پر عمل درآمد کیا جاتا4 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف خواجہ غلام نبی گلوکار انور کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت,, عوامی جمہوریہ کشمیر,, کے نام سے میرپور, پونچھ اور مظفرآباد کے علاقوں پر مشتمل قائم کر دی گئی. جس کو سیکڑوں سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی روز کی بنیاد پر مختلف علاقوں کے لوگ جوق در جوق عوامی جمہوریہ کشمیر کی عبوری حکومت کے حق میں اعلان کر رہے تھے اور ان علاقوں سے مہاراجہ کی شخصی حکمرانی کا خاتمہ ہو رہا تھا. برطانیہ کے سابق فوجیوں نے کشمیر پیپلز لبریشن آرمی کے نام سے فوج کا قیام پہلے سے عمل میں لایا ہوا تھا جو پونچھ میں مہاراجہ کی فوج سے لڑائی لڑ رہی تھی.,,کشمیر کے اندر مسلح بغاوت,, کا منصوبہ جو جمہوریہ کشمیر کے قیام کی وجہ سے ناکام ہو رہا تھا اس پر فوری عمل درآمد کرنے کے لیے 22اکتوبر 1947 کو مسلمانوں کی مدد کے نام پر مظفرآباد کے راستے قبائلی حملہ آور داخل کیے گئے جن کی قیادت میجر خورشید انور کر رہا تھا ان قبائلی حملہ آوروں نے مظفرآباد اور میرپور میں نہتے اور معصوم شہریوں کا قتل عام کیا. مختلف مورخین کے مطابق صرف میرپور میں 25 ہزار سے زائد نہتے معصوم اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام ہوا. سیکڑوں خواتین نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر خودکشیاں کیں. جبکہ مظفر آباد میں ظلم و جبر کی داستان کو جاننے کے لیے کرشنا مہتا کی کتاب,, ایک ماں کی سچی کہانی,, کا مطالعہ کافی ہے 24 اکتوبر 1947 کو پاکستانی جاگیرداروں کی کالونی آزاد کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
دوسری طرف بھارت سے راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے مسلح غنڈوں کے ذریعے جموں میں بے گناہ, نہتے اور معصوم شہریوں کا قتل عام کروایا گیا. تاکہ مذہب کے نام پر ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کیا جائے اگر ہم ریاست جموں کشمیر کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کسی عہد میں بھی ہندو مسلم فسادات کی نشاندہی نہیں ملتی. مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے جموں کشمیر میں آپس میں رواداری اور بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے تھے. جو ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرتے تھے. ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے تھے. غیر مسلم رمضان المبارک میں مسلمانوں کے سامنے کوئی چیز نہیں کھاتے تھے.
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مشترکہ کمانڈر انچیف ماونٹ بیٹن نے 25 اکتوبر 1947 کو دہلی میں دفاعی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور کشمیر میں بھارت کی فوجی مداخلت کے لیے حکمت عملی تیار کی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کو مطمئن کیا جائے کہ وہ بھارت سے فوجی امداد کی درخواست کرے اور عارضی الحاق کی دستاویز پر دستخط کرے. اس غرض سے ریاستوں کے محکمے کے وزیر وی پی مینن کو 25 اکتوبر کو ہی بذریعہ ہوائی جہاز سری نگر روانا کر دیا گیا. جو اگلی صبح 26 اکتوبر کو نا کام واپس لوٹ آیا. مہا راجہ نے بھارت سے فوجی امداد اور عارضی الحاق سے انکار کر دیا. اور اقتدار جمہوریہ کشمیر کی عبوری حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا. اور خود کو جموں کے قلعہ میں بند کرنے کا فیصلہ کر لیا اور عملی طور پر عمل درآمد بھی کیا(جس کی تصدیق متعدد مورخین نے کی ہے) لیکن 27 اکتوبر کو بھارتی فوج بلا جواز سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتری اور وادی, جموں اور لداح کے علاقوں پر قابض ہو گئی۔

یوں ریاست جموں کشمیر کی وحدت کو تقسیم کر دیا گیا. بہن بھائی سے, ماں بیٹی سے, باپ بیٹے سے اور بھائی بھائی سے جدا ہو گیا. ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے دوبارہ کبھی اپنے پیاروں کو نہیں دیکھا. ریاست جموں کشمیر پر دونوں ممالک کے حکمران طبقات کا فوج کشی کرنے کا کیا مقصد تھا ؟ اور اس میں برطانیہ کا کیا مفاد وابسطہ تھا ؟ ان کو سمجھنا ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کے لیے لازم ہے اور پھر پاکستان اور بھارت کی عوام جو محنت کش ہیں ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے حکمران طبقات ایک ارب پچاس کروڑ انسانوں کو مسئلہ کشمیر کے نام پر خوف و ہراس میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگا رہے ہیں جبکہ یہاں کے عوام تمام جدید بنیادی انسانی سہولیات سے محروم ہیں
اس وقت ریاست جموں کشمیر میں کھربوں کی دولت پیدا ہوتی ہے. جو دونوں ممالک کے جاگیردار, سرمایہ دار اور حکمران طبقات کی عیاشیوں پر خرچ ہو رہی ہے.ریاست جموں کشمیر ان کی نوآبادی ہے. یہاں کے عوام نسل در نسل تمام بنیادی سہولیات سے محروم چلے آ رہے ہیں یہاں سے جو دولت دونوں ممالک کے حکمران طبقات لوٹ رہے ہیں وہ اپنی عوام پر خرچ نہیں کرتے بلکہ آج دونوں ممالک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی سطح غریب سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر کی موجودگی سے ان حکمرانوں نے اپنے عوام کو ہر وقت خوف و ہراس میں مبتلا رکھ ہوا ہے اور اپنے شہریوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے دفاع کے نام پر ہڑپ کر لی جاتی ہے. یوں دونوں ممالک سے اس وقت تک غربت, افلاس, اور جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکتا جب تک یہاں کے عام محنت کش اور مزدور اس بات پر منظم احتجاج نہیں کرتے کہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کے وسائل کی لوٹ مار بند کر و اور دفاع کے نام پر ان کی دولت کو لوٹا نہ جائے بلکہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔
پچھلے 73 سالوں میں دونوں ممالک کے حقیقی حکمرانوں نے دفاع کے نام پر یورپ, امریکہ اور روس سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے اگر ریاست جموں کشمیر کے وسائل وہاں کے عوام کے حوالے کر دیئے جائیں تو ان بارود کے انبار کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا. برصغیر کے عوام جس طرح ہزاروں سالوں سے پرامن طور پر اس خطہ میں زندگیاں گزار رہے تھے. وہ آج اس جدید دور کے تقاضوں کے مطابق جس میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کی ہے اس سے مکمل طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔

رياست جموں کشمير و اقصاۓ تبتہا کا نقشہ

آج اگر ہم سائنسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو اس پورے خطہ کے عوام کی جدوجہد ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے. انھیں یہاں کے حکمران طبقات کی چالوں اور مفادات کو باریک بینی سے دیکھنا ہو گا اور اسے عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ہوگا. پورے خطہ کے عوام انتہائی کرب اور ذلت کی زندگی بسر کر رہے ہیں. اسکی تمام تر ذمہ داری یہاں کے حکمران طبقات چاہے وہ پاکستان کے ہیں یا بھارت کے ان پر عائد ہوتی ہے. وہ یہاں کے عوام کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں. اس میں عالمی سامراج امریکہ اور اس کے حواری بھی ملوث ہیں. آئیں ہم برادری ازم, علاقائی ازم, فرقہ پرستی سمیت ہر طرح کے تعصبات کو اپنے سماج سے صفایا کریں اور صرف طبقاتی بنیادوں پر ایک دوسرے سے جڑٹ پیدا کریں اور تمام اقوام کی مکمل آزادیوں کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں تا کہ خطہ کی تمام اقوام کے شہری باعزت زندگیاں گزار سکیں. کوئی قوم دوسری قوم کا استحصال نہ کرے بلکہ تمام اقوام برابری کی بنیاد پر حکمران طبقات کے خلاف ایک انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں. خطہ کے عام انسانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں ہے. جس پر چل کر وہ خوشحال اور پر امن زندگی گزار سکیں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *