Main Menu

قبائلی حملہ تاریخ کی نظر میں ؛ تحریر: شمیم خان

Spread the love

قسط 1

کشمیر کے مہاراجہ کامحل نوارتر کی تقریب میں سجا تھا اسکے دربار ہال میں رونق سب سے زیادہ تھی ۔ 24 اکتوبر کو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نوارتر منا رہے تھے ریاست کے تمام معزز لوگ دربار میں حاضر تھے دستور کے مطابق وہ ایک ایک کر کے مہاراجہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور ریشمی رومال میں بندھی سونے کی کوئی چیز مہاراجہ کی نذر کرتے تھے مہاراجہ نذر قبول کرنے کے لیے اسے ہاتھ لگاتے اور واپس کر دیتے تھے ۔
مہاراجہ ان تین حکمرانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنا وجود باقی رکھا تھا وہ ریاستیں کشمیر جوناگڑھ اور حیدراباد تھیں۔
جوناگڑھ کے نواب نے اپنی ریاست کے محل و وقوع کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔پندرہ دن بعد ہندوستان کی فوج ریاست میں داخل ہوگئی ۔نواب کو اپنے پالتو کتوں اور چہیتی بیویوں کے ساتھ بذریعہ جہاز پاکستان جانا پڑا۔

اسی طرح نظام حیدراباد کے اقتدار کے گنتی کے تھوڑے دن رہ گئے تھے ۔نظام نے انگلینڈ اور ہندوستان کی حکومتوں سے بارہا اصرار کیا کہ اسکی ازاد حثیت کو تسلیم کیا جائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوا ہندوستان کے اخری وائسرائے کے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہندوستان نے بذریعہ طاقت اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے پندرہ اگست تک ہندوستان یا پاکستان کسی سے ملنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا وہ اس ریاست کے تخت وتاج کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے جسے انکے جد امجد نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے لاکھوں روپوں میں خریدا تھا ۔
چوبيس اکتوبر کو جب سجے ہوئے دربار میں معززین مہاراجہ کی خدمت میں نذریں پیش کر رہے تھے ٹھیک اسی وقت کشمیر کی راجدھانی سری نگر سے پچاس میل مشرق میں دریائے جہلم کے کنارے ایک دستہ زبردستی اس مکان میں داخل ہو چکا تھا ۔جس میں ہر طرف آلات اور مشینیں لگی ہوئی تھیں طرح طرح کے ڈائلوں اور لیوروں سے آراستہ ایک پینل پر ڈائنامائیت کی چھڑیں باندھ کر ایک ادمی نے دیا سلائی دکھا دی سب کو خبردار کرتا ہوا وہ عمارت سے باہر نکل گیا ۔
دس سکینڈ کے بعد کان کے پردوں کو پھاڑ دینے والا دھماکہ ہوا جس نے بجلی گھر کو اڑا دیا اور پاکستان کی سرحد سے لداخ تک اور چین کی سرحد تک پھیلے ہوئے کوہستانی سلسلے تک اندھیرا ہو گیا ۔
ہری سنگھ کے محل کے تمام جگمگاتے ہوئے قمقمے بجھ گئے،کشمیر کی راجدھانی میں ہر طرف اندھیر پھیل گیا ڈل جھیل کی سطح پر ہاوس بوٹوں میں تعطیل گزارنے والے انگریزوں کی سمجھ میں اچانک اندھیرا ہونے کا راز نہ ایا ۔

مہاراجہ کے بیٹے کرن سنگھ اپریشن ہونے کے باعث اپنی خواب گاہ میں ارام کر رہے تھے اسکی وجہ انکی سمجھ میں بھی نہیں ائی ۔
آزاد رہنے کا جو خواب ہری سنگھ دیکھ رہے تھے اسے خاک میں ملانے کے لیے سینکڑوں پٹھان کشمیر میں داخل ہو کر مختلف سمتوں میں پھیل چکے تھے مہاراجہ نے اپنی حفاظت کے لیے جو فوج رکھی تھی اسکا ایک حصہ ان مداخلت کاروں سے مل گیا اور دوسرا پہاڑوں میں غائب ہو گیا تھا ۔
بغیر آگاہی کے اس مداخلت کا راز اس درخواست میں تھا جو دو مہینے قبل جمعہ 24 اگست کو محمد علی جناح نے اپنے انگریز ملٹری سیکریٹری کے ذریعے کی تھی ۔
پھیپھڑوں کی بیماری اور پچھلے چند ہفتوں کی دوڑ دھوپ نے جناح کو اتنا تھکا دیا تھا کہ انھوں نے تعطیل منانے کا فیصلہ کر کے کرنل ولیم برنی سے کہا کہ اپ کشمیر جائیے اور ایسا انتظام کیجیے کہ میں ستمبر کے وسط میں وہاں دو ہفتے کی تعطیل گزار سکوں ۔

تعطیل منانے کے لیے جناح نے کشمیر کا انتخاب کیوں کیا ؟

اسکی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کشمیر کی تین چوتھائی ابادی مسلمان ہے اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوگا تو کہاں جائیگا یہی بات جناح کے دماغ میں بھی تھی ۔
وہ انگریز افسر پانچ دن بعد واپس آیا اسے مہاراجہ نے جو جواب دیا وہ سنکر جناح سناٹے میں آگئے۔
مہاراجہ نے اپنی ریاست کی سرزمین پر جناح کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی تھی جناح وہاں سیاح کی حثیت سے بھی نہیں جا سکتے تھے وہ سمجھ گئے کہ کشمیر کی صورتحال وہ نہیں ہے جو وہ سمجھے ہوئے ہیں اصل صورتحال معلوم کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ایک جاسوس کشمیر بھیجا اس نے واپس اکر یہ تکلیف دہ خبر سنائی کہ مہاراجہ کا پاکستان میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں یہ ایسی بات تھی کہ پاکستان کے حکمران بالکل برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔
ستمبر کے وسط میں لیاقت علیخان نے لاہور میں ایک خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ مہاراجہ کو مجبور کرنے کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے ۔

براہ راست حملے کا خیال اس اجلاس میں زیر غور ایا لیکن کسی نے اس بات کو اہمیت نہیں دی پاکستان کی فوجی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ ہندوستان سے براہ راست جنگ کا خطرہ مول لے سکتا۔
اسکے علاوہ دو اور تدبیریں زیر غور آئیں پہلی کہ پاکستان کشمیر کی مسلم ابادی کو مال اور ہتھیار دے اور اسطرح بھڑکائے کہ وہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت کر دیں اس کام میں کہیں مہینے ضرور صرف ہوں گے لیکن جب چالیس پچاس ہزار مسلمان مہاراجہ کے محل کامحاصرہ کر لیں گے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو پاکستان چاہتا ہے۔
دوسری تدبیر وہ تھی جس میں ان لوگوں کو الہ کار بنانا تھا جو ہندوستان میں سب سے زیادہ بہادر ہیں اور لوگ ان سے ڈرتے ہیں شمال مغربی سرحد کے پٹھان پاکستان کے حکمرانوں کے زیادہ وفادار نہیں تھے انھیں خاموش اور مطمئن رکھنے کا مسلہ حکمرانوں کے لیے پریشانی کا باعث تھا ان پٹھانوں کو بھڑکا کر سری نگر بھیجا جا سکتا تھا ۔افغانستان کے حکمران پٹھانوں کو اشتعال دے رہے تھے کہ وہ پشاور کو لوٹ لیں اگر ان پٹھانوں کو سری نگر بھیج دیا جائے تو انکی نظریں پشاور سے ہٹ جائینگی اور لوٹ مار کرنے کی وہ اپنی پیاس سری نگر کے بازاروں میں بجھائیں گے ۔

(جاری ہے)






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *