مغرب اور اسلام؛ تحرير: اياز نظامی
سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ بنک کو محفوظ رکھنے کے لیے سمجھوتے کریں، اور یہ ایک عالمی رویہ ہے، جو پاکستان یا ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پایا جاتا ہے۔
مغربی ممالک میں مسلمان عددی لحاظ سے ایک طاقتور گروپ بن چکے ہیں جنھیں نظر انداز کرنا اب مغربی سیاسی جماعتوں کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ کہ امریکی صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے بیان دیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکی سکولوں میں اسلام کے متعلق مزید معلومات دی جائے، اور اس بیان سے مسلمان ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنا ہے۔
چنانچہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کی طرف سے کی گئی ہر مانگ کو بہت خوشی سے مان لیا جاتا ہیں۔ مغربی اخبارات بھی مسلمانوں کی خوشی اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں، کہ ایسا مواد کم ہی چھاپیں جس سے اسلامو فوبیا میں اضافہ ہو۔ لہذا اگر کسی جرم میں مسلمان ملوث ہو تو اُس کا ثقافتی پس منظر کا حوالہ نہیں دیا جاتا مثلاً اوسلو میں اگر کوئی صومالیہ یا شام کا مسلمان کسی مقامی لڑکی سے زیادتی کرتا ہے تو خبر ہوں ہوتی ہے کہ اوسلو میں ایک مرد نے ایک لڑکی کو ریپ کیا۔ اب یہ مرد کون ہے، کس ثقافتی پس منظر سے تعلق ہے یا وہ کہاں سے ناروے آ کر بسا ہے، اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔
سیاسی جماعتوں کی مجبوری اپنی جگہ، اخبارات بیشک اسلام اور مسلمانوں کی محبت میں گرفتار رہیں ، لیکن عوام کچھ اور سوچ رہے ہیں۔ فرانسیسی استاد کے قتل کی وجہ سے عوامی جذبات یوں باہر آ نا شروع ہو گئے ہیں، کہ حضور کے کارٹون زیادہ تعداد میں سامنے آ رہے ہیں۔
یہ کارٹون ایک ناریجن خاتون نے شیئر کیا ہے، بقول اُس خاتون کے آج وہ گھومنے کے لیے باہر نکلی تو اوسلو کے قریب للے ستروم نامی شہر کے ایک بس سٹاپ پر لگا ہوا تھا۔
یہ وہی خاتون ہے جس نے چند سال پہلےمہم چلائی تھی کہ اوریا مقبول کو ناروے کا ویزہ نہ دیا جائے، جس کے نتیجے میں اوریا مقبول ناروے نہ آ سکا، اوریا نے اپنے ٹی وی پروگرام پر اس سلسے میں بہت واویلا کیا تھا۔
خاتون نے مضمون میں مطالبہ کیا ہے کہ فرانسیسی صدر کو چاہیے کہ ملک کے ہر شہر میں جگہ جگہ اس قسم کے کارٹون چسپاں کیے جائیں تاکہ مسلمان اس کے عادی ہونا شروع ہو جائیں۔
اب آگے کیا ہوتا ہے، اس کے متعلق ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ جو مین سٹریم جماعتیں ہیں، انھوں نے اگر یہی رویہ جاری رکھا تو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں اور گروہ بہت زیادہ طاقت پکڑیں گے۔ مسلمانوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More