Main Menu

ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر پر کالک ملنے کا واقعہ: نوبیل انعام یافتہ سائنسدان کو مذہبی امتیاز کا سامنا کیوں؟

Spread the love

پونچھ ٹائمز ويب ڈيسک

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے ایک کالج کے باہر متعدد مشہور شخصیات کے ساتھ موجود ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر پر چند نوجوانوں کی جانب سے کالک ملنے کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کے بارے میں ردعمل سامنے آیا۔
جمعرات کو پیش آنے والا یہ واقعہ گوجرانوالہ کے نیشنل سائنس کالج کے باہر رونما ہوا اور اس ویڈیو میں دیکھے جانے والے نوجوانوں کا تعلق ’سٹیٹ یوتھ پارلمینٹ‘ نامی تنظیم سے ہے۔
خیال رہے کہ جمعرات کو ڈاکٹر عبداسلام کو نوبیل انعام ملنے کی 41ویں سالگرہ بھی تھی۔
جہاں سوشل میڈیا پر اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے وہیں یہ سوال بھی کہ دورِ حاضر کے نوجوانوں کے ذہن میں ڈاکٹر عبدالسلام اور ان کے مذہبی رجحان سے متعلق منفی جذبات کی بنیاد کیا ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں تاریخی پہلو پر ضرور نظر ڈالنی ہوگی۔
واقعے کا پسِ منظر؟
اس تنظیم کے صدر شہیر سیالوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں گوجرانوالہ سے ان کی تنظیم کے کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ شہر میں ایک کالج کے باہر جہاں ٹیپو سلطان اور علامہ اقبال کی تصاویر لگی ہیں وہیں ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویر آویزاں ہے جس پر مبینہ طور پر لوگوں کو اعتراض ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نوجوان تصویر پر کالے رنگ کا سپرے کرتا ہے جس کے بعد کچھ افراد احمدی مخالف نعرے بھی لگاتے ہیں۔

شہیر سیالوی کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کہ عوام کو دکھایا جائے کہ ڈاکٹر عبدالسلام ’پاکستان مخالف تھے اور انھوں نے پاکستان کے آئین اور اس کے جوہری پروگرام کے خلاف بھی بات کی تھی‘۔
تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو کسی عدالت کی جانب سے غدار نہیں قرار دیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی شواہد ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست دراصل بیرونی دباؤ کے باعث ایسا نہیں کر سکتی‘۔
احمدی مخالف نظریات کا تاریخی پسِ منظر کیا ہے؟
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس حوالے سے تاریخی پسِ منظر پر نگاہ ڈالیں تو احمدی مخالف نظریے کی بنیاد صرف مذہبی نہیں تھی بلکہ سیاسی بھی تھی۔
انھوں نے کہا کہ تقسیمِ ہند سے بھی پہلے مجلسِ احرار کی جانب سے احمدیوں کے خلاف تحریک چلائی گئی تھی جس کے ذریعے اس مسئلے کو اس طرح مقبول بنایا گیا کہ یہ ’مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور انھیں انگریزوں کی حمایت حاصل ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ اس کا اثر ہمیں تقسیم کے بعد بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور سنہ 1953 کے مارشل لا کا باعث بننے والے احمدی مخالف فسادات میں بھی احرار جماعت پیش پیش تھی۔
وہ بتاتے ہیں ‘ان کا یہی مطالبہ تھا کہ حکومت احمدی افراد کو غیر مسلم قرار دے لیکن جب پیپلز پارٹی کی جانب سے انھیں غیر مسلم قرار دیا گیا تو اس کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی۔’
ڈاکٹر مبارک نے بتایا کے یہ مسئلہ پنجاب سے زیادہ منسلک ہے اور اس کی بڑی وجہ یہاں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں احمدی افراد کی بڑی تعداد ہے۔
انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں اس حوالے سے متعدد مظاہرے کیے گئے تھے اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے دباؤ بھی بڑھایا گیا جس میں احمدیوں کے سربراہ کو پارلیمان میں بھی بلایا گیا اور ان سے سوالات کیے گئے جس کے بعد 1974 میں انھیں آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔
ایک سائنسدان کو مذہبی امتیاز کا سامنا کیوں؟
شہیر سیالوی کا کہنا تھا ’ان کا مذہبی عقیدہ ایک طرف لیکن ان کے پاکستان مخالف نظریات سے ہمیں مسئلہ ہے۔‘
تاہم سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں نہ صرف احمدی مخالف نعرے لگائے گئے بلکہ تنظیم کے فیس بک پیج پر ویڈیو کو شیئر کرتے وقت ایسے ہی تبصرے بھی کیے گئے۔
دوسری جانب جب ڈاکٹر مبارک علی سے ڈاکٹر عبدالسلام پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بطور معاشرہ غدار کے لفظ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا کوئی ٹھوس ثبوت کبھی بھی نہیں دیا جاتا‘۔
انھوں نے کہا ’میری تحقیق کے مطابق ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کے حامی تھے اور سائنسدان کی حیثیت سے سیاست سے بہت دور رہتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صرف ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں ہی نہیں بلکہ غدار ہونے کا الزام تو متعدد لوگوں پر بھی لگایا جاتا ہے۔
‘مخالفین کا کسی کو غدار کہنے کا مقصد صرف اس شخص کو بدنام کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے، اس کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔’
ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ’یہ سب مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے ہے ورنہ سائنس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔
وہ کہتے ہیں ‘دنیا بھر میں جب سائنسدان اپنے شعبوں میں کام کرتے ہیں تو وہ ایسا اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی سائنسی قابلیت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔
‘ہمارے ہاں کیونکہ انتہا پسندی داخل ہو گئی ہے تو اس لیے ہم ایک سائنسدان کا مذہبی عقیدہ دیکھتے ہیں لیکن اس کی سائنسی قابلیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔’
نوجوانوں کی اس سوچ کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ نوجوانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ ’ڈاکٹر سلام مسلمان نہیں ہیں اور یہ مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کا حصہ ہیں، اس لیے انھیں قبول نہیں کرنا چاہیے‘۔
انھوں نے کہا کہ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کی قبر ربواہ میں موجود ہے جس پر لکھا ہوا تھا ’پہلا مسلمان نوبیل انعام یافتہ شخص‘ لیکن وہاں کسی نے مسلمان مٹا دیا تو اب وہاں صرف ’پہلا نوبیل لاریئیٹ‘ لکھا ہے۔
‘ڈاکٹر عبدالسلام ایک سائنسی شخصیت تھے لیکن نوجوانوں کو اس حوالے سے علم نہیں ہے اس لیے ان میں اس حوالے سے مذہبی انتہا پسند جذبات پیدا ہو گئے ہیں جس کا اظہار کبھی فسادات اور کبھی اس طرح کے واقعات کے ذریعے کیا جاتا ہے۔’

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ردِ عمل دیتے ہوئے ماہر معاشیات ڈاکٹر عاطف میاں کا کہنا تھا کہ ’کاش انھیں یہ معلوم ہوتا کہ عبدالسلام ان سے کتنا پیار کرتے تھے اور ان سے کتنی محبت کرتے تھے اور انھوں نے کیسے اپنی زندگی ان کی فلاح کے لیے صرف کر دی۔‘
صحافی بلال فاروقی نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل ’قوم کے چہرے پر کالک ملی جا رہی ہے اور یہ آنے والے تاریک دور کا پیش خیمہ بھی ہے‘۔

بشکريہ بی بی سی






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *