لڑکيوں کے کھيل پہ چند باتيں؛ تحرير : عابد محمود
لڑکیوں کو اگر پلے گراؤنڈ کی سہولت ملی ہے تو انھیں بہت مبارک ہو وہ خود بھی کھیلیں اور دیگر تعلیمی اداروں اور گھروں میں موجود خواتین کے کھیل کود کے حق کےلیے بھی کوشش کریں۔
خواتین زندگی کے تمام شعبوں میں حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں.
کھیل کود میں حصہ لینے کیلیے وہ کسی دلیل کا سہارا لینے کی کوشش بھی نہیں کریں بلکہ اسے اپنا بنیادی حق سمجھیں اور اسکےلیے ہر حد تک لڑیں۔
رہی بات مخالفت کرنے والوں کی تو اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں انھیں صرف دماغی معائنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے.
ان کے دماغوں میں اس نصاب تعلیم اور مسجد کے خطیب نے ایک زہر بھرا ہے اور وہ حالت تضاد میں ہیں۔
انکے تضاد کا عالم یہ ہے کہ مسجد میں ملاں جب انھیں بتاتا ہے کہ عورت گھر تک محدود ہو گی تو ماشا اللہ کہتے ہوئے باہر نکل کر جیے بے نظیر کا نعرہ مارتے ہیں، پیپلز پارٹی کے رکن ہوتے ہوئے سوشلزم کو کفر سمجھتے ہیں اور مسٹر جناح رح لکھ کر شیعہ کافر کا نعرہ بھی لگاتے ہیں. ان دماغی معذوروں پر ترس کھانے کی ضرورت ہے ان سے مباحثہ ممکن نہیں. ایک تو انکی غیرت نامی بے غیرتی کا کوئی علاج نہیں ہے یہ اتنے باغیرت ہیں کہ دنیا میں لوگ ریاستوں کے شہری ہیں اور یہ کسی تنازع کا حصہ ہیں اور جس ملک کے دیوانے ہیں وہ انھیں شہری تک تسلیم نہیں کرتا۔
نوٹ: مذہب کو بطور ہتھیار مت استعمال کیجیے گا کیونکہ مذاہب کھیل کودکی اجازت دیتے ہیں یا نہیں اسکا تو پتہ نہیں البتہ عورتوں کی خرید و فروخت کی منڈیاں سجانے سے جہاں انکے رنگ، قد اور جسمانی خدوخال اچھی طرح چانچ کر خریدا اور بیچا جائے سے روکتے بھی نہیں ہیں تو اگر آپ کو آج کی دنیا سے مسئلہ ہے تو کیا وہیں واپس چلیں؟
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More