Main Menu

معائدہ امرتسر؛ تحریر: فاروق خان

Spread the love

یہ کوئی زمین کا سودا نہیں تھا، کشمیر (ویلی) سکھوں (لاہور دربار) کے براہ راست قبضے میں تھی، سکھوں اور انگریزوں کے درمیان بقاء باہمی کا ایک معاہدہ تھا جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سکھوں نے انگریز علاقے پر حملہ کر دیا، سکھ یہ جنگ ہار گئے اور انگریز نو مارچ 1846کو فاتح کی حیثیت سے لاہور میں داخل ہوئے، نو مارچ کو ہی انگریزوں اور لاہور دربار کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے معاہدہ لاہور کہا جاتا ہے اس معاہدے کے تحت سکھوں نے تاوان جنگ(war penalty) ادا کرنا تھا جو ڈیڑھ کروڑ نانک شاہی طے پایا عدم ادائیگی کی صورت میں تمام سکھ سلطنت انگریزوں کے قبضے میں چلی جانی تھی… سکھ حکومت رنجیت سنکھ کی.وفات کے بعد عرصہ سات سال سے انتہائی غیر منظم اور مالی طور پر دیوالیہ ہو چکی تھی جس کی.وجہ سے وہ تاوان جنگ ادا نہیں کر سکے، اسی معاہدے کی بنیاد پر گلاب سنگھ نے جو جموں کا راجہ تھا انگریزوں کو کل تاوان کی آدھی ادائیگی یعنی پچھتر لاکھ نانک شاہی کے عوض کشمیر اور دیگر کوہستانی علاقے واگزار کرانے اور اس کا حق حکمرانی تسلیم کرنے کی پیشکش کی.جسے ایسٹ انڈیا کمپنی جو کہ برصغیر میں تاج برطانیہ کی نمائندہ تھی نے قبول کر لیا اور اسی تناظر میں سولہ مارچ 1846کو معاہدہ امرتسر ہوا اور کشمیر باقی سکھ سلطنت کی طرح انگریزوں کی عملداری میں جانے سے بچ گیا اور1586کے بعد اس کا نیم مردہ اور مسخ شدہ تشخص بحال ہوا نہ صرف بحال ہوا بلکہ اس وقت کی سپر پاور نے اسے تسلیم کیا اور آج بھی اس کا علیحدہ تشخص باوجود اس کے کہ یہ ریاست منقسم، محکوم اور پارہ پارہ ہے اپنی جگہ پر قائم اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے…
ایک تو معاہدہ امرتسر کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے نہ ہونے پر کشمیر کا مستقبل کیا ہوتا یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے… اگر معاہدہ امرتسر نہ ہوتا تو ایک تو مسخ شدہ اور پہ درپہ مغلوں، افغانوں اور سکھوں کے ہاتھوں پامال شدہ کشمیری تشخص کی بحالی نہ ہوتی اور تاوان کی عدم ادائیگی پر باقی سکھ مملکت کی طرح برطانوی ہند کا حصہ بن جاتا اور بالآخر اگست1947میں برطانوی ہند کی تقسیم کے بعد انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کا آئینی حصہ بن چکا ہوتا اور ہماری داستاں بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *