گلگت بلتستان کے عوام کو با اختیار سیٹ اپ دیا جاۓ، چند اہم حقائق؛ تحرير: کامريڈ محمد الياس
گلگت بلتستان کے عوام کو با اختیار سیٹ اپ دیا جاۓ، اس مطالبے کو لیکر یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ جس با اختیار سیٹ اپ کی گلگت والوں کے لیے آپ مانگ کر رہے ہو آپ خود لے چکے ہیں کیا؟
سوال بہت جاندار ہے پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر 4000 مربع میل پر پاکستان کی قاہم کردہ ایک کٹھ پتلی حکومت ہے،اس حکومت کے اوپر 4 پاکستانی لینٹ آفیسران بیٹھے ہوۓ ہیں جن کی موجودگی میں ریاست کے تمام ادارۓ بے اختیار ہیں۔
ایکٹ 74 اور کشمیر کونسل کی موجودگی میں حکومتی وزرا ، وزیرِ اعظم ،صدر سب کے سب بے بس تنخواہ دار ہیں۔ یہ تنخواہ بھی چاپلوسی،سہولت کاری اور قابض کے مفادات کے تحفظ پر ملتی ہے۔ کبھی اگر غلطی سے بھی عوام یا ریاست کے حق میں کوئی بات زبان سے نکل جاۓ تو غداری کا مقدمہ بن جاتا ہے۔
ایسے کٹھ پتلی سیٹ اپ کے زیرِ اثر رہنے والوں کی جانب سے گلگت بلتستان کے با اختیار سیٹ اپ کی مانگ کیوں؟؟
گلگت بلتستان کے لیے با اختیار سیٹ اپ کا مطالبہ گلگت بلتستان کو صوبہ بناۓ جانے کے عمل کے ردِ عمل میں شدت کیساتھ سامنے آیا ہے۔
اس مطالبے نے گلگت بلتستان کے عوام کو صوبہ بنا کر حقوق دینے جیسے چورن سے جنم لیا ہے ۔ یہ کہ اگر آپ واقعی گلگت بلتستان کے عوام کو سیاسی حقوق دینا چاہتے ہو تو پھر انھیں با اختیار حکومت دو۔
گلگت بلتستان منقسیم و متنازعہ ریاست جموں کشمیر کی ایک اکائی ہے۔ قابض کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ریاست کی اس متنازعہ پوزیشن میں وہ کسی ایک اکائ میں علیحدہ سے ریفرنڈم کرواۓ، صوبہ بناۓ یا انضمام کرۓ۔
جہاں تک ریاست میں بسنے والی کسی بھی قومیت کی علحیدگی کا سوال ہے تو قابضین کے ریاست جموں کشمیر سے انخلا اور ریاست کی وحدت کی بحالی کے بعد تمام قومیتوں کو مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے بشمول حقِ علیحدگی کے۔
اس سارۓ تناظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو حقوق کا جھانسہ دیکر صوبہ بنانے کی کاوشیں آخری مراحل میں ہیں ۔
اور حقوق دینے کے نام کو صوبے کے قیام کے ساتھ اسی لیے جوڑا جا رہا ہے تا کہ صوبے کی مخالفت میں جو بھی آواز اٹھے تو قابض اور اس کے سہولت کار یہ پروپیگنڈہ کر سکیں کہ یہ آوازیں گلگت بلتستان کے لوگوں کو حقوق دینے کے خلاف ہیں۔ دونوں اطراف کے عوام کو پھر سے ابہام کا شکار کرنے اور دوریاں پیدا کرنے کے لیے یہ فوری نوعیت کی سازش ہے اور اس سازش کا جواب ایسے دیا جا سکتا ہے کہ
٭- جو آج ہمارۓ پاس نہیں ہے اس کی گلگت والوں کے لیے مانگ کریں بلکہ دونوں اطراف شدت کیساتھ یہ مانگ کریں گلگت بلتستان کے لیے بھی اور نام نہاد آزاد کشمیر کے لیے بھی ۔
٭- اور اگر جو ہمارۓ پاس نہیں ہے وہ گلگت والوں کو ملتا ہے تو یہ ہماری جدوجہد کی ایک قدم آگے پیش رفت ہو گی۔
٭- نام نہاد آزاد کشمیر کے لیے با اختیار سیٹ اپ کی آواز گلگت بلتستان سے بھی اٹھنی چاہیے۔
٭- ساتھ میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی
٭- گلگت بلتستان اور نام نہاد آزاد کشمیر کے قدرتی راستوں کو کھولنے اور عوام کے میل ملاپ کی آواز دونوں اطراف سے بلند ہونی چاہیے۔
٭- کشمیر کونسل اور گلگت کونسل کے خاتمے کی آواز میں بھی اشتراک پیدا ہونا چاہیے۔
ایسے ہی ہماری جدوجہد میں ایکتا اور جڑت پیدا ہو سکتی ہے ۔ہمارۓ مسائل مشترک ہیں ہمارا دشمن مشترک ہے ۔اس لیے ہماری جدوجہد بھی مشترک بنتی ہے۔
اور وہ جدوجہد ہے اختیارات کے حصول کی جدوجہد،جنھیں کوئی ایک اکائی علیحدہ سے حاصل نہیں کر سکتی۔ بلکہ داخلی طور پر اپنے اختیارات کے حصول کے لیے منظم تحریک بنانا اور دوسری اکائی کے عوام کے اختیارات کی مانگ بڑھ چڑھ کر کرنا ہو گی اور دوسری اکائ کے عوام کی جدوجہد کی بھرپور سیاسی اور اخلاقی حمایت کرنا ہو گی۔
ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی کے تمام راستے گلگت بلتستان سے منسلک ہیں ۔ گلگت اور مظفرآباد کی آزادی سے سری نگر جموں لداخ کی آزادی مشروط ہے۔
بدلتی ہوئ صورت حال میں گلگت بلتستان اور مظفرآباد کی با اختیار حکومتیں جن کے آپسی اشتراک سے ایک اعلی سطحی ادارہ جو داخلی اور خارجی طور پر مسلہ ریاست جموں کشمیر کو ریاستی عوام سے لیکر عالمی دنیا کے سامنے پیش کرۓ اور دنیا کو یہ باور کروا سکے کہ مسلہ ریاست جموں کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ دو کروڑ لوگوں کے سیاسی معاشی ثقافتی اور سماجی حقوق اور آزادی کا مسلہ ہے جس کے ساتھ دو ارب انسانوں کا مستقبل اور پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے امن کا سوال جڑا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم گلگت بلتستان کے با اختیار سیٹ اپ کی شدت سے مانگ کرتے ہیں۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More