Main Menu

آزاد ریاست جموں کشمیر؛ تحریر: شمس رحمان

Spread the love

آج ریاست جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق اور آزادی کی تحریکوں کے قائدین کے لیے کلیدی سوال یہ ہیں کہ آج کے حالات میں آزاد جموں کشمیر کیسا ہونا چاہیے؟ اور ایسا جموں کشمیر حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اس مضمون میں کھلے دل و ذہن کے ساتھ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ان سوالوں پر ریاست جموں کشمیر میں عوامی سیاست کے تاریخی اور موجودہ تناظر بحث کی گئی ہے۔ مجھے نہ تو ایسا کوئی دعویٰ ہے اور نہ ہی قارئین کو ایسا سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ میں یہاں لکھ رہا ہوں یہ حرف آخر اور تنقید و ترمیم سے ماوراء ہے۔ درحقیقت یہ ان نازک سوالوں پر بحث کی ایک کوشش ہے جو ریاست اور اس کے باشندوں کو درپیش غلامی ، قبضے اور جبر کی مختلف شکلوں سے آزاد کروانے کے لیے لازمی ہے۔
اصل حالات ہمیشہ اس رخ پر آگے بڑھتے ہیں جدھر ان کو زمین پر موجود سیاست اور جدوجہد لے کر جاتی ہے۔ تاہم سوچ وچار اور تحریر و تجزیے اس سیاست اور جدوجہد میں تھوڑا بہت کردار ادا کر سکتے ہیں اگر ان کو ٹھوس زمینی حقائق کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ اس حوالے سے بھی مجھے جسمانی طور پر جو تھوڑی بہت رسائی حاصل ہے وہ برطانیہ اور ‘آزاد’ کشمیر کے حالات تک محدود ہے۔ تاہم سماجی ذرائع ابلاغ اور کچھ ذاتی رابطوں رشتوں کے ذریعے کشمیر وادی ، جموں ، لداخ و گلگت بلتستان کے حالات سے بھی کسی حد تک آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ اسی تناظر میں کچھ عرصہ پہلے میں نے ‘ مسئلہ کشمیر کا جمہوری حل’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کے بعد کے حالات نے یہ مضمون لکھنے کی تحریک دی ہے۔ ( میں یہاں بھارت و پاکستان کے قبضے کی گرفت و شدت اور نوعیت کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہا ہوں کیونکہ اگر ریاست کے تمام خطے کسی نتیجے پر پہنچ کر مشترکہ طور پر بھارت و پاکستان کے سامنے اپنے مطالبات پر امن مگر تسلسل کے ساتھ رکھیں تو ان کے پاس تمام خطوں کی قیادتوں کے ساتھ مذاکرات کے سواء کوئی راستہ نہیں بچے گا بشرطیکہ ریاست کے مختلف خطوں کی قیادت پاکستان یا بھارت کی پراکسی نہ بنے جس طرح کہ سنتالیس میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کی قیادت کی شکل میں بن گئی تھی )
پس منظر
متحدہ ریاست جموں کشمیر میں ابھرنے والی عوامی تحریک کو دیکھیں تو اس کے بطن سے خود مختار کشمیر کے تین تصور ابھرے تھے۔
٭۱- نیا کشمیر
٭۲- جموں کشمیر
٭۳- آزاد کشمیر
ان میں سے میرے خیال میں ‘نیا کشمیر ‘ واضح ترین تصور تھا کیونکہ اس میں ریاست کی کثیر الثقافتی نوعیت اور ہر ایک شعبہ زندگی سے متعلق پالیسیوں اور اقدامات کو واضح انداز میں پیش کیا گیا تھا ۔ دوسرا تصور جو جموں کشمیر کا تھا وہ مہاراجہ کی سرپرستی میں اصلاحات کے ذریعے آگے بڑھایا جا رہا تھا اور میرے خیال میں اگر نیشنل کانفرنس کشمیر چھوڑ دو تحریک نہ شروع کرتی تو مہاراجہ درحقیقت کثیر الجماعتی جمہوریت کو تسلیم کر چکا تھا اور ایسے انتخابات جن میں اسمبلی کی تمام نشستوں پر مقابلہ ہونا تھا ان میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس ہی بڑی جماعتیں بن کر ابھرنا تھیں ۔ اس عہد میں آزاد کشمیر کے تصور کی دو شکلیں پیش کی گئی تھیں ۔ ایک مزدور کسان کانفرنس والی شکل جس کی جو وضاحت پریم ناتھ بزاز نے ‘ آزاد کشمیر : ایک جمہوری سوشلسٹ تصور’ میں پیش کی اس کے مطابق ایسا آزاد کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق کر کے قائم کیا جانا تھا۔ یعنی یہ توقع کی جارہی تھی کہ الحاق کے بعد پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے اس تصور کو حقیقت بنانے کی گنجائش فراہم کی جائے گی۔ اور وہ بھی ایک جمہوری اور سوشلسٹ آزاد کشمیر کی ۔ جبکہ آزاد کشمیر کا دوسرا تصور مسلم کانفرنس والا تھا جس میں مہاراجہ کی سرپرستی میں ایک کثیر الجماعتی آزاد و خود مختار ملک قائم کیا جانا تھا جو بھارت اور پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں تھا۔
ان تینوں میں سے کوئی تصور بھی عملی جامہ نہ پہن سکا اور ریاست تقسیم ہو گئی۔ ایک طرف پاکستان کی سرپرستی میں مسلم کانفرنس اور دوسری طرف بھارت کی سرپرستی میں نیشنل کانفرنس اقتدار میں آ گئی۔ ریاست جموں کشمیر کے وہ تمام باشندے جو ریاست کی موجودہ صورت حال کو بدلنا چاہتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے مستقبل کے حوالے سے جو بھی تصور درست سمجھتے ہیں یا کوئی نیا راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو بھی تقسیم کے آر پار ‘دونوں کشمیروں’ میں حقیقتوں کو پوری طرح جان کر مستقبل کا فیصلہ کریں ورنہ چہرے بدل جائیں گے صورت حال نہیں بدلے گی ۔ حاکم اور مالک بدل جائیں گے غلامی بدستور رہے گی۔

تقسیم اور پیار میں جبر یا جبری پیار؟

تقسیم کشمیر کے وقت سیاسی صورت حال ایسی تھی کہ اگر بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کو کشمیری عوام کی بہتری مقصود ہوتی تو جنگ بندی لکیر کے آر پار وہ ایک طرف بھارت اور کشمیر اور دوسری طرف پاکستان اور کشمیر کے درمیان اس بظاہر باہمی رفاقت وقربت اور محبت کے رشتے کو پروان چڑھاتے۔ اندرونی خود مختاری ، کشمیری تشخص، جمہوریت اور سماجی انصاف فراہم کرتے اور کشمیر کے وسائل کو کشمیر کی معاشی اور اقتصادی ترقی کے لیے استعمال کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک طرف شیخ عبداللہ اور دسری طرف سردار ابراہیم جنہوں نے ریاست میں آزادی، انصاف اور جمہوریت کی عوامی تحریک کا رخ کانگرس اور مسلم لیگ کی طرف موڑنے میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا کو نکال باہر کیا گیا اور تب سے بظاہر پیار کا یہ رشتہ بداعتمادی اور بے اعتباری کی راہوں پر چل نکلا۔ بعد ازاں تو اس میں جبر و تشدد کا عنصر بھی در آیا اور اب تک دونوں طرف درحقیقت یہ رشتہ جبری شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اس لیے دونوں طرف یہ نعرہ پروان چڑھا کہ جبری ناطے توڑ دو ۔ کشمیر ہمارا چھوڑ دو۔
دوسرا اہم عنصر جس نے ریاست کے دونوں حصوں میں مزاحمتی سیاست کو پھر سے جنم دیا اور جلا بخشی وہ خود نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کی قیادت میں سیاسی اختلافات رائے اور متعلقہ حصے میں بیرونی قبضے کو تسلیم نہ کرنے والوں کو پر امن طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی گنجائش فراہم کرنے اور جمہوری طور پر ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کو کچلنے کی پالیسیاں تھیں۔ تقسیم کے بعد شروع میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمتی آوازیں مسلم کانفرنسی اور جماعت اسلامی کے سیاسی نظریات رکھنے والوں کی طرف سے اٹھائی جاتی تھیں جبکہ پاکستانی مقبوضہ حصے میں یہ آوازیں نیشنل کانفرنسی سیاسی نظریات اور خود مختار کشمیر کے لیے تھیں۔ دونوں طرف عددی اعتبار سے یہ مزاحمتی آوازیں معمولی اور اقلیتی آوازیں تھیں۔ لیکن ایک طرف نیشنل کانفرنس اور دوسری طرف مسلم کانفرنس نے اپنی سیاسی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے نہ صرف اپنے اندرونی اختیارات و طاقت کے ذریعے بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے آقاوں کی مدد سے ان چھوٹی چھوٹی آوازوں کو کچلنے کی پالیسیاں اپنائیں۔ یوں تقسیم کے بعد اولین دنوں سے ہی ریاست کے دونوں حصوں میں مزاحمتی سیاست کا وجود قائم ہو گیا۔

آر پار مزاحمت کی شکلیں

پاکستان اور بھارت کے قبضے کے خلاف مزاحمتی آوازوں کا مرکز وادی کشمیر اور آزاد کشمیر چلے آ رہے ہیں۔تاہم دنوں خطوں میں مزاحمت کی شکلیں مختلف رہی ہیں۔ وادی میں مزاحمتی آوازیں شروع میں شیخ عبداللہ کی معطلی اور قید کے ردعمل میں محاذ رائے شماری کی شکل میں سامنے آئیں اور اس کے متوازی جماعت اسلامی اور مسلم کانفرنس کی طرف سے بھی بھارتی قبضے کو مسترد کرنے کا رحجان بتدریج فروغ پذیر رہا ہے۔ اندرہ عبداللہ ایکارڈ کے بعد مسلم کانفرنس و جماعت اسلامی والی مزاحمت کو ایک طرح کی اخلاقی برتری حاصل ہو گئی۔
جموں اور لداخ میں اگرچہ بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کے قابل ذکر شواہد نہیں ملتے لیکن ان دونوں خطوں میں ریاست کی وحدت اور باشندہ ریاست کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر بااختیار اسمبلیوں کی دہائی ہمیشہ سے سنائی دیتی رہی ہے۔ آج بھی ان علاقوں میں ریاست کے اندر مقامی خود مختاری کے مطالبات فروغ پذیر ہیں۔
گلگت بلتستان جن کو کرنل حسن کی قیادت میں آزاد کروایا گیا تھا اور ابھی حال ہی میں کرنل حسن کے بیٹوں کرنل نادر حسن اور کرنل وجاہت حسن کی وساطت سے معلوم ہوا کہ تب گلگت بلتستان کا پرچم وہی تھا جو آزاد کشمیر کا سرکاری پرچم ہے اور اب وادی میں بھی لہرایا جارہا ہے ۔ لیکن ان علاقوں کو آزاد کشمیر کے قیام میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اور چار اکتوبر کی حکومت کے وزیر اعظم اور چوبیس والی کے صدر سردار ابراہیم کی موجودگی میں آزاد کشمیر سے جدا کر کے پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ وہاں باشندہ ریاست معطل کر دیا گیا اور ابھی حال ہی تک بنیادی جمہوری حقوق بھی معطل رکھے گے تھے۔ تاہم اب ایک نیم جمہوری حکومت موجود ہے۔ یہاں بھی مزاحمتی سیاست میں باشندہ ریاست کی بحالی اور ایک مکمل طور پر با اختیار مقامی حکومت قائم کرنے کے مطالبات کو عوامی کی بھاری حمایت حاصل ہے۔
‘آزاد’ کشمیر کو چونکہ سرکاری طور پر آزادی کے ‘ بیس کیمپ’ کے طور پر قائم کیا گیا تھا اس لیے یہاں بائیس سالوں تک کوئی باقاعدہ حکومتی نظام قائم نہ کیا گیا۔ بلکہ عنان حکومت عارضی قواعد کے ذریعے مسلم کانفرنس کی ایک جماعتی حکمرانی کے تحت چلائی گئی۔ ستر کی دہائی تک یہاں مزاحمتی سیاست کو سردار ابراہیم کی معطلی کے ردعمل میں پونچھ کی بغاوت ، میرپور میں منگلا ڈیم کی جبری تعمیر کے خلاف تحریک ، کے ایچ خورشید کی سربراہی میں لبریشن لیگ کے قیام ، اور پاکستان و آزاد کشمیر میں موجود خود مختاری پسند کشمیریوں کی طرف سے محاز رائے شماری کے قیام سے مہمیز ملی ۔ طلباء میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے خود مختاری کے نظریے کو تقویت دی۔ ستر کی دہائی میں مقبول بٹ کی طرف سے دنیا کی ہم عصر تحریکوں کی مناسبت سے جنگ بندی لکیر کے پار گوریلا کاروائیوںا ور جیل سے فرار و گنگا اغواء جیسے حریت پسندانہ اقدامات اور حریت پسندوں کی پکڑ دھکڑ اور ان پر مقدمات نے مزاحمتی سیاست کے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا ۔ آزاد کشمیر، خاص طور سے میرپور سے بیرون ممالک ، خصوصاً برطانیہ میں مقیم کشمیریوں نے دامے درمے اور سخنے مزاحمتی سیاست کو حمایت فراہم کی۔
ریاست کے مختلف خطوں میں مزاحمتی سیاست کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ گذشتہ سات دہاہیوں میں یہاں مقامی شناخت اور مقامی حقوق کی سیاست کو تقویت ملی ہے اور کشمیر کا جو سیاسی تصور ریاست کی قومی شناخت بن کر ابھر رہا تھا وہ تقسیم کے بعد آزاد کشمیر کے علاوہ کسی علاقے میں فروغ نہیں پا سکا۔ حتیٰ کہ وادی کشمیر میں بھی کشمیری کا مطلب جغرافیائی طور پر وادی اور ثقافتی طور پر کاشری کے دائر میں سمٹ آیا ہے۔ صرف آزاد کشمیر اور بیرون ممالک آباد آزاد کشمیریوں میں آج بھی کشمیری پوری ریاست جموں کشمیر کی قومی سیاسی شناخت سمجھی جاتی ہے۔ تاہم ایسا نظر آتا ہے کہ ریاست کے دیگر خطوں میں ریاست کی وحدت کے حامیوں کی اکثریت کو بھی کشمیری پوری ریاست کی سیاسی شناخت کے طور پر منظور نہیں ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وادی کے اندر مزاحمتی سیاست میں بھارتی اور ریاستی سیکولرازم کے نام پر تسلط اور جبر کے ردعمل میں بتدریج مذہبی (اسلامی ) شناخت کو مرکزی حیثیت حاصل ہو تی گئی جبکہ آزاد کشمیر میں ریاستی اور پاکستانی اسلام کے نام پر تسلط اور جبر کے ردعمل میں جو مزاحمتی سیاست پروان چڑھی اس میں سیکوالرزم اور سوشلزم کے نعروں اور نظریات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

خود مختار کشمیر کے موجودہ نظریے کی تنگ دامنی

ریاستی سطح پر متحدہ خود مختار ریاست کشمیر کا نظریہ، سیاست اور تنظیمیں لداخ، جموں اور گلگت بلتستان میں کوئی خاطرہ خواہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یوں خود مختار کشمیر کا نظریہ وادی اور آزاد کشمیر میں کتنا بھی مقبول کیوں نہ ہو اور کشمیر مسئلے کے حل کے لئے اس کو کتنا ہی معقول اور منصفانہ اور جمہوری کیوں نہ قرار دیا جائے عملی طور پر یہ وادی اور آزاد کشمیر تک محدود ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جو اس نظریے کی داعی نہ صرف سب سے بڑی جماعت ہے بلکہ واحد جماعت ہے جو ریاست کے کم از کم چار حصوں وادی، جموں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ تاہم لداخ میں اس کے وجود سے کم از کم میں آگاہ نہیں ہوں اور جموں اور گللگت بلتستان میں بھی برائے نام وجود رکھتی ہے۔
ایسی صورت حال میں عملی طور پر تو کسی قسم کی پیش رفت تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب ریاست کے مختلف خطوں کی اس سیاسی قیادت کے مابین کھلا بحث مباحثہ ہو جو کم از کم ریاست کی وحدت کی حامی ہے ۔ لیکن نظری طور پر اس بحث مباحثے کے لیے ایک خاکہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

تحریک کی تنگیاں

ٹھیک اس وقت مزاحمتی سیاست کو عروج وادی کشمیر میں حاصل ہے جہاں گذشتہ اڑھائی عشروں سے بھارتی قبضے کے خلاف جاری تحریک کو اس دوران پروان چڑھنے والے نوجوان کشمیری نسل نے بظاہر ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مزاحمت کی یہ تحریک تب پھوٹی تھی جب نیشنل کانفرنس اور انڈین کانگرس نے مل کر کشمیری اور بھارتی سرکار سے مل کر مسلم یونائٹڈفرنٹ کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے لیے دھاندلی اور طاقت کا ناجائز استعمال کیا تھا۔ یعنی تبدیلی کا جمہوری راستہ جبری طور پر بند کیا تھا اور پاکستان نے کشمیر کو بھارت سے چھین کر اپنے قبضے میں کرنے اور رکھنے کے لیے عوامی مزاحمتی تحریک میں پہلے بندوق اور پھر اسلام کے نام پر مجاہد داخل کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں جہاں لاکھوں انسانی زندگیاں اور معاشی و سیاسی اور سماجی ڈھانچہ تباہ ہوا وہاں سیاسی طور پر یہ تباہی ہوئی کہ بھارت عالمی سطح پر مقامی تحریک کو پاکستانی مداخلت قرار دینے میں کامیاب رہا ۔
وادی میں مزاحمت کا تازہ ترین ابھار جو 8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت سے پیدا ہوا اس میں بھی پاکستانی پرچم لہرا کر اور بعد ازاں اُڑی کے واقعے کے نتیجے میں اس کی مقامیت بُری طرح متاثر ہوئی ۔ تاہم آزاد کشمیر کے پرچموں کی آمد سے اس میں امید کی ایک ایسی کرن ضرور دکھائی دے رہی ہے جو تحریک کی اصل بنیاد کشمیریت کی بحالی اور فروغ کے لیے کچھ مواقع اور راستے فراہم کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں وادی اور ریاست کے دیگر خطوں کی سیاسی آزادی صرف اور صرف ایک نظریے کے ذریعے ممکن ہے اور وہ نظریہ ہے کشمیریت کا ۔ وہ کشمیریت جس کا اظہار ” نیا کشمیر’ میں کیا گیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ کشمیریت کی اس لہر کو نیشنل کانفرنس نے بعد ازاں اقتدار کے بدلے بھارت کے ہاں گروی رکھ دیا تھا اور ایکارڈ کے بعد تو اس کو بالکل اجنبی بنا دیا گیا۔ تاہم میرے خیال میں اگر مقصد اگر جمہوریت ، سماجی انصاف ، ترقی اور خوشحالی والی آزادی حاصل کرنا ہے تو پھر کشمیریت کا تصور کسی ایک سیاسی جماعت سے بڑا اور وسیع تھا اور ہے یا کم ازکم ہونا چاہیے ۔ وادی کے اندر آج تحریک مزاحمت جس نے بے شک بھارتی قبضے کی چولیں تک ہلا کر دکھ دی ہیں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی سیاست یعنی سیاسی ویژن و بصیرت میں کشمیریت کی غیر حاضری ہے۔ یوں وادی کی تحریک مزاحمت کے لیے سب سے بڑی آزمائش کشمیریت کے نظریے اور سیاست کو بھارت اور بھارت نواز سیاست سے آزاد کروا کر مزاحمتی سیاست کی رہنما روشنی بنانا ہے۔ ایک سیاسی نظریے کی حیثیت سے میری خیال میں کشمیریت اتنی سیکولر ہے کہ اس میں مذہب کی بنیاد پر سیاسی جبریت کا راستہ روکنے کی سکت موجود ہے اور اتنی مذہبی ہے کہ سیکولر بنیاد پرستی کو حد میں رکھ سکتی ہے ۔ اس کی جڑ بنیاد اور روح میرے خیال میں مذہبی رواداری اور کثیر النظریاتی معاشرے کا قیام ہے ۔ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ یہ معاشرے میں ہر سطح پر موجود ہے ۔ بلکہ میرا دعویٰ یہ ہے کہ کسی نہ کسی حد تک یہ موجود ہے جس کو مزاحمتی تحریک سیاست کے ذریعے بھارت نوازی سے آزاد کروا کر پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس پر وادی کے دانشور زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔میں جس آزاد کشمیر کے خدوخال یہاں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس کی بنیاد اور روح کشمیریت ہی ہے اور وہ کشمیریت کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔

کیسا آزاد جموں کشمیر

یہ کشمیر وادی کاشر ، جموں ، لداخ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ ریاست جموں کشمیر میں ان خطوں کے علاوہ مزید قومیتی شناختیں بھی موجود ہیں تاہم حکومتی ڈھانچوں کے طور پر میرے خیال میں یہ وہ خطے ہیں جہاں گذشتہ ستر سالوں سے مقامی حکومتی ڈھانچے موجود چلے آرہے ہیں اور ان کے گرد ان کی مقامی شناختیں پروان چڑھی ہیں ۔ سوائے جموں کے لیکن وہاں بھی مقامی اسمبلی کی مانگ بدستور فروغ پذیر ہے ۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جموں اور لداخ میں بھارتی یونین میں مکمل طور پر ضم ہونے اور گللگت بلتستان میں کشمیر کے ساتھ نہ رہنے کے نظریات بظاہر زیادہ طاقتور ہیں لیکن اس پہلو کا احاطہ آگے چل کر کیا گیا ہے۔
آج کے حالات میں اس آزاد کشمیر کا تصور درحقیقت نیشنل کانفرنس کے نیا کشمیر ، مسلم کانفرنس و مزدور کسان کانفرنس کے آزاد کشمیر اور پیپلز نیشنل پارٹی کے متحدہ ریاست ہائے کشمیر کا امتزاج قرار دیا جا سکتا ہے ۔ تاہم ظاہر ہے کہ ‘آزاد کشمیر’ کے ان تینوں تصورات اور پروگراموں کو موجودہ صورت حال کے مطابق ڈھالنا ہو گا جس کے لیے مختلف خطوں سے خواہشمند حلقوں سے مشاورت لازمی ہو گی۔ اور اس وقت تک جو بھی پرچم مختلف خطوں میں استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک پر شاید اتفاق ممکن نہیں ہو گا اس لیے عین ممکن ہے باہمی اتفا ق سے تبدیلیاں لازمی ہوں لیکن بنیادی تقاضا بھارت کی طرف سے پر امن سیاست پر جبر و تشدد کا خاتمہ اور بھارت و پاکستان دونوں کی طرف سے ریاست کو شہ رگ و اٹوٹ انگ قرار دینے کی جابرانہ روش و پالیسی کو ترک کر کے ریاستی عوام کے درمیان باہمی مذاکرات اور مکالمے کے ذریعے ایسی ریاست کے قیام پر اتفاق کرنا ہے جو ریاست کے تمام خطوں کے عوام کے لیے قبل قبول اور جس میں ان کے علاقائی (قومیتی) مفادات اور حقوق اور شناختوں کی ضمانت ہو۔

آزاد کشمیر کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟

تقسیم سے پہلے ابتدائی طور پر تو تبدیلی کے لیے تحریک کا راستہ اختیار کیا گیا تھا لیکن جب مہاراجہ حکومت نے ذمہ دارانہ نظام حکومت کے لیے اسمبلی متعارف کروا دی تو پھر سیاست کا مرکز و محور اس اسمبلی کے اختیارات بڑھانا بن گیا ۔ تاہم کشمیر چھوڑ دو تحریک کے نتیجے میں موجود اسمبلی کے اختیارات بڑھانے اور اس کو جمہوریانے کی بجائے مہاراجہ کو کشمیر سے نکالنا مقصد بن گیا ۔ اس کے نتیجے میں متحدہ کشمیر کی سیاست اور بعدازاں ریاست بھی ٹوٹ بکھر کر بھارت اور پاکستان کے ‘ انتظام’ میں چلی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک ‘آزادی’ کے لیے کئی ایک کوششیں اور کاوشیں کی گئیں اور مختلف راستے اختیار کیے گئے۔
سب سے پہلی کوشش مسلم کانفرنس کے ایک دھڑے کی طرف سے ‘ عبوری ‘ اور پھر ‘ آزاد’ حکومت کا قیام تھا ۔ جس کو پونچھ میں بغاوت اور قبائلیوں کی مداخلت کے ذریعے پوری ریاست کی حکومت بنانے کی کوشش جس کو مہاراجہ نے الحاق کے بدلے بھارت کی مدد سے ناکام تو کر دیا لیکن ریاست بھارت و پاکستان کی فوجوں کے درمیان جنگ کا میدان بن گئی۔
دوسری کوشش بھارت نے اقوام متحدہ کے ذریعے کی جہاں بھارت و پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد 13 اگست 1948 کو قرار داد منظور ہوئی جس کے مطابق پہلے پاکستان کی طرف سے تمام اور پھر بھارت کی طرف سے افواج کی اکثریت کو نکال لینے کے بعد آزادانہ ریفرنڈم کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا ۔ لیکن مبینہ طور پر پاکستان کی طرف سے اعتراض پر 5 جنوری 1949 کو قرار داد میں کشمیر کے مستقبل کو بھارت اور پاکستان سے الحاق تک محدود کر دیا گیا۔ پاکستان نے افواج نہیں نکالیں اور بھارت نے الحاق کو ہی حتمی قرار دے کر اپنے زیر انتظام جموں کشمیر میں انتخابات کو الحاق کی توثیق قرار دے کر اقوام متحدہ کی طرف سے اس کو ریفرنڈم کے مترادف نہ قرار دینے کے باجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ماننا اور منوانا شروع کر دیا جبکہ پاکستان نے افواج نہ نکالنے اور اندرونی طور پر کشمیر کو شہ رگ قرار دینے کے باوجود عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اظہار جاری رکھا۔ اس کے بعد چناب فارمولے سے شروع ہو کر نیشنل کانفرنس کی اٹانومی ، پی ڈی پی کی خود حکومتی، شملہ معائدے ، امان اللہ کی طرف سے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی ، سجاد لون و یوسف بچ ، جنرل مشرف اور کے ایچ خورشید سمیت کئی فارمولے پیش کیے گئے ۔ ادھر رائے شماری کی کوکھ سے مقبول بٹ نے مسلح جدوجہد کے ذریعے قومی آزادی کی جدوجہد کا آغاز بھی کیا جو ان کی پھانسی پر منتج ہوئی اور جو مسلح جدوجہد مسلم یونائٹڈ فرنٹ کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے خلاف برپا ہوئی وہ مقبول بٹ کے قومی آزادی کے فلسفے اور سیاست سے عاری ہونے کے باعث بھارتی قبضے کو مفلوج کرنے کے باوجود آزادی نہ جیت سکی ۔

پانچ اسمبلیاں ایک ریاست ۔ رضاکارانہ کنفیڈریشن ؟

ایسی صورت حال میں جب کہ پوری ریاست میں ایک طرف بھارت اور دوسری طرف پاکستان کی فوجیں اور خفیہ ادارے اور سول و فوجی بیوروکریٹس، نام نہاد صحافی اور دانشور دن رات ریاستی باشندوں کو جبروتشدد ، دھونس دھمکی اور لالچ و بلیک میلینگ کے ساتھ ساتھ یک طرفہ ذرائع ابلاغ اور تعلیمی نصاب کے ذریعے قابو میں رکھے ہوئے ہیں یہاں نہ تو کسی ایک نظریے کے لیے بظاہر غالب حمایت موجود ہے اور نہ ہی کوئی ایسی سیاسی تنظیم موجود ہے جس کو ریاست کے تمام خطوں میں قابل ذکر حمایت حاصل ہے تو ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پوری ریاست میں رائے شماری ہو اور جس خطے میں اکثریت جس طرح کے مستقبل کے لیے ووٹ دے ۔ یہ مطالبہ پوری لداخ کے بودھوں اور جموں میں غیر مسلموں کی اکثریت کی طرف سے کبھی سننے میں نہیں آیا۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ریاست کے تمام انتظامی خطوں میں بغیر بیرونی دباو اور فوجی و خفیہ اداروں کی دھونس اورآجارہ داری اور خود مختار کشمیر کے نظریے کے تحت انتخابات پر عائد پابندیوں کے بغیر غیر جانبدار عالمی مبصرین اور ذرائع و ابلاغ اور حقوق انسانی کی تنظیموں کی نگرانی میں پانچوں علاقائی اسمبلیوں ( بشمول جموں اسمبلی) انتخابات ہوں اور ان انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنے علاقے کے مستقبل کے حوالے سے مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے خود کو عوام کے سامنے پیش کریں ۔ ان انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعتوں سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ کس علاقے میں کتنی اکثریت کیا مستقبل چاہتی ہے۔ ان اسمبلیوں کو پھر آپس میں بیٹھ کر ریاست کے مجموعی مستقبل پر مذاکرات کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کیا جائے اور اس کی روشنی میں آئندہ لائحہ عمل بشمول خود مختار ریاست کا قیام (اور نام ) یا بھارت و پاکستان کے ساتھ باہمی طور پر قابل قبول انتظامات کے تحت آگے بڑھا جائے۔
یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر ریاست کے تمام خطوں کے حقوق و وسائل اور تشخص اور اندرونی خود مختاری یا خود اختیاری کا حق حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ چاہے وہ متحدہ ریاست میں رہیں یا پھر پڑوسی ملک کے ساتھ جائیں۔ دوسرا راستہ وہ ہے جس پر بھارت اور پاکستان کے حکمران اس وقت چل رہے ہیں۔ جبر اور طاقت سے ریاست کی بندر بانٹ اور وسائل کی لوٹ مار۔ اس کے بعد یہ نمائندہ قیادت پر منحصر ہے کہ حتمی اور منطقی نتیجہ جموں کشمیر میں شکل میں نکلے گا یا جموں کشمیر لداخ و گلگت یا پھر فقط کشمیر کی شکل میں؟






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *