Main Menu

توہم پرست سماج؛ تحرير: فرخ سہیل گوئندی

Spread the love

قوموں کی پستی کا ثبوت صرف معاشی اور اقتصادی بربادی ہی نہیںہوتے، بلکہ کسی قوم اور سماج کی پستی یا زوال کا اندازہ وہاں پر بسنے والے افراد کے سماجی رویوں، افکار، نظریات اور ذہنی رجحانات سے لگایا جا تا ہے۔ جب قومیں ناکام ہو جائیں،تو وہ فرسٹریشن کا شکار ہو کرتشدد پسند ہو جاتی ہیں اور سماج مذہبی فرقوں، ذاتوں، نسلوں اور مختلف سطحی شناختوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور اس دوران نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ گری کا رجحان زور پکڑ جاتا ہے، بلکہ اپنے فتووں پر عمل پذیری کے لیے ریاست کے قوانین کے بجاے ’’ازخود عمل درآمد‘‘ کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کی سازشیں قرار دیا جاتا ہے۔ سماج میں مذہب کی روح (Spirit) کے بجاے Rituals کا زور ہو جاتا ہے اور توہم پرستی کو مذہبیت تصور کرلیا جاتا ہے۔
توہم پرستی کا رجحان مذہب تک ہی محدود نہیں رہتا، سیاست، کاروبار اور رہن سہن کے تمام پہلوئوں میں قوم توہم پرستی کا شکارنظر آنے لگتی ہے۔ سماج پستی کی اس انتہا میں اتر جاتا ہے کہ معاشرے میں دھوکادہی کرنے والے اپنے کرتبوں کو فخریہ طور پر پیش کرکے قوم کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں، جیسے سامری جادوگر کا بنایا ہوا بچھڑابولنے لگا تھا، ویسے ہی گاڑیاں پانی سے چلانے کے دعوے ہوتے ہیں۔ ایسے پتھروں اور لاکٹوں کے اشتہار الیکٹرانک میڈیا پر دیدہ دلیری سے پیش کیے جاتے ہیں، جوہماری زندگیوں کو بدل دیں۔ پتھر اور دھات سے بنے یہ زیور کاروباراور ازدواجی زندگیوں کے حوالے سے کامیابیوں کے در کھول دینے کے دعوے کے ساتھ ڈھٹائی سے بیچے جاتے ہیں۔ پیروں فقیروںکے آستانوں میں تعویذ دھاگوں، دم کیے پانیوں سے بے اولادوں کو اولاد عطا کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں اور ان آستانوں میں ’’حاضری‘‘ دینے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ان ’’آستانوں‘‘ پر حکمرانی اور سیاست میں کامیابی کے تعویذ بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاسی رہنما ان آستانوںمیں پیر زادوں کی ’’عنایت کردہ‘‘ خاک کی پڑیاں حاصل کرتے ہیں اور پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے پہلے پانی کے ساتھ اس خاک کو نگل لیتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور تقدیر کو ان پڑیوں سے بدلنے کا یقین اور ایمان رکھتے ہیں، بلکہ اپنے اوپر کرپشن کے قائم سچے مقدمات سے رہائی کے لیے بھی ان پیروں فقیروں کی دعائیں اور اپنی کمر پر چھمکیں‘‘ (لاٹھیاں) کھانے کا چلّہ کاٹا جاتا ہے۔ بڑے بڑے جرنیل، جج اور حکمرانی کے دعوے دار ان آستانوں میں، جس توہم پرستی کا شکار ہوتے ہیں،اگر ان کہانیوں کو طشت ازبام کردیا جائے، تو مہذب دنیا دنگ رہ جائے۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہاتھوں میں تسبیح پکڑے لوگوں کی تقدیر بدلنے والے، ستاروں کے علم کے ساتھ لیپ ٹاپ کے ساتھ فون کالز کرنے والوں کو تقدیر اور قسمت بدلنے کے مشوروں ہی سے نہیں نوازتے، بلکہ وہ قوم کی تقدیر اور مستقبل سے بھی ’’آگہی‘‘ دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان دعائیہ مشوروںمیں عمل کے بجاے ایسی حرکات کرنے کی تلقین کی جاتی ہے،جو مذہب اور منطق کے دائروں میں نہیں آتیں۔ دعائوں میں دشمنوں کی توپوں میں کیڑے پڑنے پر مبنی بددعائیں مانگی جاتی ہیں اور جہاں بھر میں پھیلی اپنی ناکامیوں، شکستوں پر رو رو کرگڑگڑانے کی آواز میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی خاص اُمت کے ساتھ یہ سلوک کیوں کررہا ہے؟ حالاںکہ یہ سوال خود اپنے آپ سے کیا جانا چاہیے۔ دنیا میں جہاں کہیں طوفان، سیلاب یا زلزلہ آ جائے، اس پر اپنے مضامین، کالموں، تحریروں اور تقاریر میں کہاجاتا ہے کہ ہمارے ’’دشمنوں‘‘ سے اللہ ناراض ہے اور یہ ان پر عذابِ الٰہی نازل ہواہے۔ درحقیقت اس ناگہانی آفت کو بددعائوں کی قبولیت سے جوڑا جاتا ہے اور اپنے خلاف بیرونی سازشیں تیار کرنے والوں کو ان طوفانوں کا شکار کہہ کرذہنی تسلی دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا انتقام لے لیا۔
توہم پرست سماج کا ایک رجحان وہاں کے حکما بھی ہیں، جنھوں نے کبھی سکول، کالج، مکتب یا کسی حکمت کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن ان کے شفاخانوں کی شاخیں شہروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ ریڈیو چینلوں پر حکیم اور پروفیسر کے لقب کے ساتھ باقاعدہ پروگرامز کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیںکہ دل، کینسر، ذیابیطس اور تمام سنگین بیماریوں کا علاج ان کی فروخت کردہ پڑیوں سے ممکن ہے۔ سائنسی ایجادات کے ذریعے ان علاجوں کے خلاف اپنے ریڈیو پروگرامز میں گفتگو کی جاتی ہے، بلکہ ان فروخت کردہ یا عطا کردہ پڑیوں سے بیٹا (اولادِنرینہ) بھی دستیاب ہے۔ ایسے معاشروں میں، جہاں توہم پرستی کا راج ہو جائے، وہاں پر جادوگر آپ کو اشتہاروں کے ذریعے دعوت دیتے ہیں کہ آپ ہمارے پاس آئیں اور اپنے شریکوں کی طرف سے کیے گئے جادو کا توڑ حاصل کریں، جادو کے ذریعے کاروبار میں برکت، محبت میں کامیابی کے لیے جادوگر کے ٹونے کی ’’سعادت‘‘ حاصل کریں، لڑکی کو رام کریں اور اپنا کام تمام کریں۔ مغرب کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اشرافیہ اور سماج کا ادنیٰ غیرتعلیم یافتہ ہر شخص ان پیروں فقیروں، جادوگروں اور غیرمرئی طاقت رکھنے والوں کے ڈیروں پر حاضر ہوتا ہے۔ بڑے بڑے حکمران قومی فیصلے کرنے کے لیے ان جادوگروں، پیروں فقیروں اور تعویذ گنڈے باز ان بابوں کے ہاں حاضر ہو کررہنمائی حاصل کرتے ہیں، یعنی یہ رہنما سماج کے فیصلے کرنے کی قوت اور استطاعت سے محروم ہیں۔ یہ رجحان سماج کی پستی اور زوال کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ناکامیوں کی شکار ایسی قومیں، دوسرے سماجوں میں اپنی کامیابیوں کی دعوے داری بھی کردیتی ہیں کہ انھوں نے ہمارے مذہب سے یہ لے لیا اور آج ترقی کی منازل طے کرلیں۔ پستی کی انتہا دیکھیں کہ وہ مذہب جس پر وہ خود درست عمل نہ کرسکے اور جب دیکھا کہ کامیاب قومیں کسی منزل پر پہنچ چکی ہیں، تو اعلان کردیا کہ یہ ہمارے ہی مذہب سے استفادہ کیا گیاہے، بلکہ اپنی کامیابیوں کی تلاش میں اپنے سیاسی مفکروں کے افکار کی دوسرے سماجوں میں کامیابیوں پر دعوے داری کرکے اپنی روح کو تسکین دی جاتی ہے کہ فلاں ملک، اگر پچھلے چند برسوں میں ترقی کرگیا تو وہ دراصل ہمارے فلاں مفکرکی فکری بنیاد پر ممکن ہوا یا جیسے فلاں ملک نے ہمارے فلاں ترقیاتی پانچ سالہ منصوبے پر عمل کرکے ترقی کی۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ خود ہم نے ترقی کیوں نہیں کی۔
سماج میں توہم پرستی دراصل پستی کے رجحان کی ایک اجتماعی جھلک ہے۔ ایسا سماج جو شان دار ادب، شاعری، تحریر، تحقیق اور تخلیق کے حوالے سے بانجھ ہو جاتا ہے وہاں پر یہ بھی یقین کرلیا جاتا ہے کہ ہم دنیا کی ذہین ترین قوم ہیں، لیکن جب ایسے توہم پرست سماج کی شاعری، ادب، تحقیق اور تخلیق کو ہم عصر دوسرے سماجوں میں برپا ہوئے ادب اور تخلیق سے موازنہ کیا جائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ توہم پرست سماج خود پسندی پر کھڑا ہے۔ ایسے سماج کی ایک جھلک وہاں کے لوگوں کی عام چال ڈھال میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، یعنی ٹریفک۔ ایسے سماج کے لوگ جب سڑکوں پر رواں دواں ہوتے ہیں، تو اپنی سواری پر بڑے بڑے مذہبی بیانات چسپاں کیے ہوتے ہیں اور جس ہڑبونگ سے وہ اپنی سرزمین پر رواں دواں ہوتے ہیں، اس سے سماج کی چال ڈھال کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مذہبی دعائوں اور کلمات کا ڈھنڈورا پیٹ کروہ کیسے اپنی شاہراہوں پر رواں دواں ہیں۔
توہم پرست سماج بڑے بڑے راسپوٹین کو بھی جنم دیتا ہے، جو حکمرانی کے درباروں کو اپنے دعائیہ مشوروں سے کنٹرول کرتے ہیں۔ مذہب کی اصل روح سے محروم Ritualsکے غلبے کا شکار یہ سماج گیتوں کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ ایسے سماج خودکش سماج ہوتے ہیں۔ اُن کی نظر میں باقی سب غلط اور وہ خود ٹھیک ہوتے ہیں۔ میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے، جو اعتبار کیا






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *