صاحانِ بست کشاد و آذادیِ جموں کشمیر : تحرير: امتیاز فہیم
مملکت خدا داد کے ارباب بساط و کشاد گرچہ ستر سالوں تک جموں کشمیر کے عوام سے جھوٹ داغنے کیساتھ یہاں کے چند سادہ و دیانت دار بھولے بھالے لوگوں و نوجوانوں کو جو کچھ ایک مقامی صاحبان کی میھٹی زباں سے متاثر تھے۔
مذھب کے نام پہ بھارتی مقبوضہ کشمیر بھیجتے رھے ، وھاں کی سرکار اور اس کی غنڈہ فوج نے بیشمار نوجوانوں کو خاک و خون میں نہلایا اور ان پہ آتنگ وادی گھس بھیٹيا اور نہ جانے کیا کیا الزامات کی بوچھاڑ بھی کرتے رھے ۔
اس طرف پاکستان کا بہادر پرنٹنئگ و الیکٹرانک میڈیا مملکت خدا داد کی جیت کے نئے سے نئے گیت گاتا رھا اور اپنی سیدھی سادی عوام کو سوئے رھنے کی لوریاں دیتا رھا۔
چنانچہ ان بہادر کاغذی سورماوں نے ویسے تو اپنی جموں کشمیر کے بھارتی مقبوضہ حصے میں اپنی جیت کے وہ وہ بیانات داغے کہ الامان الحفیظ ۔ خیر سے امریکہ بہادر میں جب یک دم کہیں ایک بڑے بڑے پٹاخے پھوٹے تو دنیا پہ اس کی نظریں گھومیں چونکہ وہ تو پہلے مرد حق کو دی جانے والی ڈالری امداد کے سہارے افغانستان کو فتح کرنے کے دوران اپنے ھی تیار کردہ مریدوں کو جانتا و سمجھتا تھا اب کہ اس کی بدبودار گنڈہ گردی کی حاجت رفو چکر تو ھو چکی تھی اس لئے اس نے آئیں بائیں شاھیں کی بجائے سیدھا اپنے سابقہ مریدوں کو ھی دہشت گرد قرار دینے میں ذرا شرم محسوس نہیں کی۔
بھلا وہ کس منہ سے چرچ میں جاتا
شرم اس کو آکر بھی نہیں آئی
پھر جموں کشمیر آجاد ،،،،،،!میں زلزلہ ھو گیا اس وقت داد مملکت پہ ایک بہادر صاحب کی حکومت تھی۔ ان کا مشہور زمانہ ڈائیلاگ تھا ھم کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ھیں۔
کسی سے نہ ڈرتے ورتے ،،،،، یہ ڈائیلاگ کافی حد تک درست بھی ثابت ہوا۔ جب ساری دنیا نے زلزلہ زدگان کے لئے امداد دی اس امداد سے جو صاحب کسی سے ڈرتے ورتے نہیں تھے نے ایرا اسیرا بنائے ۔ اپنے آپ کو اور اپنے ھم۔پیالہ و ھم نوالہ و۔۔۔ھم جام جم والوں کو خوب خوب نوازا۔ اگر کسی کا گھر مال مویشی کا نقصان ھوا یا لاکھ ڈھیڈ لاکھ تک انسان لقمہ اجل بنے بھی تو اس میں ان کا کیا قصور تھا۔
وہ صاحب بہادر تھے ان کا تو بنتا تھا کہ جی بھر کہ کھاتے گرچہ بعد میں عدالتیں ان کو بھلاتی رھی مگر صاحب بیمار تھے کبھی درد قلنج تو کبھی درد خوف شوف ،،، اب یہ بھی کوئی طریقہ ھے کہ بیمار صاحب بہادر کو عدالت میں پیشی کے لئے بھلایا جائے۔؟؟؟؟
خیر جو ہوا سو ھوا۔ تھوڑی مدت بعد داد مملکت کو داد دیتے ھوئے بیرون ملک پہدارے اور وھاں پہنچتے ھی رکس و سرور کی شباب و کباب کی محفل سجائی اس کی وجہ یہ جانئیے کہ صاحب موصوف بیمار عشق آوارہ کا شوق و ذوق بھی رکھتے تھے۔
اللہ معاف کرے لوگ بھی کیا کیا پروپیگنڈہ کرتے ھیں کہ صاب کسی ھندی ڈاکٹر شرما سے مل کر کاروبار کر رھے ھیں۔ یقین تو نہیں آتا کہ صاحب بہادر اپنے ازلی و ابدی دشمن سے ملکر ایسا بھی کر سکتے ھیں مگر کس کس کا کوئی منہ بند کرے۔ اگلے موڑ پہ انگلی والے وجیہ صاحب مسند پہ براجمان ھوئے ان کی عادات و اطوار کو چھوڑئیے ایک بات ان کی ہمیشہ مثالی رھی ھے کہ ان سے اور کچھ ھو نہ ھو ان کے اقوال بہت طوفانی بلکہ افلاطونی ھوتے رھے ھیں ۔ اب جبکہ عنان اقتدار ان کی اپنی ھے جو خاصے چلے کے بعد موضوف کو عطا ھوئی اس چلئے کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وفاداری کا لایعنی حل عہد کیا تھا اچھے بھلے مانس صاحب گرامی ھیں کہ وفا پہ وفا نبھائے چلے جا رھے ھیں ۔
خدا بیڑہ غرق کرے سرکار ھندوستانیہ کا کہ اس نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے متعلق اپنے آئین کی دفعات ختم کر کہ اپنا قبضہ پکا کرنے کی بے کرتوتی حرکت کی تو ادھر مملکت خدا داد کے وجیہ و سندر وجیر اعاجم صاحب نے جموںکشمیر کے لوگوں کیساتھ ایک آدھ گھنٹہ کھڑے ھونے کی جہکجہتی بھی فرمائی
اس جہکہتی کے بعد اس طرف ان کے ھم پیالہ و۔۔۔ھم جام جم کے رسیا بھارتی حکمران خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔
انہوں نے ان کو پرسا خوشی کا سندیس بھیجا انہوں نے اپنے لکھے ھوئے پتر کی پہلے امریکہ بہادر سے جانچ پڑتال کروائی پھر ان کو خبردار کروایا ۔۔۔۔۔۔۔ جب صاحب بہادر کا ان کی طرف بھولاوا آیا تو یہ اپنے بڑے صاحبوں کیساتھ دوڑ کر عالمی شاھی دربار میں حاضر ھوئے ۔
شہنشاہ عالم حضرت ٹرمپ نے فرما یا جو بندر بانٹ ھے اسے پکا کرنا ھے کیا خیال ھے ؟ سب ھی یک زباں ھو کہ بولے حضور تھوڑا روکڑا دے دو بھلے کچھ بھی بانٹتے رھو ۔۔
پھر یوں ہوا کہ برسوں سے نیم جلتی ھوئی چنگاری
اس طرف کے پاکستانی کنٹرول خطے میں طوفان بن کر امڈ آئی جو اب تک رکنے کا نام نہیں لیتی۔
اب صاحب بہادر اور ان کے قادر شادر ایک گھنٹہ بھی اپنی شہ رگ کیساتھ کھڑے نہ ھوں تو اور کریں بھی کیا ؟ اور ویسے بھی آدھی کٹی ھوئی شہ رگ کیساتھ کوئی بھلا کب تک کھڑا رہ سکتا ھے ؟؟
اب تو ظاھر ھے ڈالریہ والے چہاد کا زمانہ تو رھا نہیں اوپر سے بیڑا گرق ھو سوشل میڈیا کا کہ یہ ھندی سچ مانتی ھے نہ پاکستانی سچ کو منہ لگاتی ھے یہ وہ دیکھاتی ھے کہ جموں کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام اب دورغ گوئی قبضہ گیری اور لوٹ کھسوٹ و قتل غارت گری کو ماننے سے صاف انکاری ھیں وہ اپنے وسائل پہ اپنا اختیار چاہتے ھیں وہ خونی لکیر کا خاتمہ چاہتے ھیں انہیں غربت و جہالت نہیں نہیں چاہئیے
ان کو بادور سے اور جنگ سے نفرت ھے وہ پر امن ھیں اور سانئسی و سیاسی شعور سے بہرہ مند ھیں وہ اپنے سارے وطن کی آذادی کی مانگ لیکر اٹھے ھیں۔
ان سب کے لب پہ صدا آذادی ھے انہیں اپنے وطن سے محبت ھے انہیں اپنی ثقافت سے عقیدت ھے انہیں اپنی زبانیں پیاری ھیں انہیں اپنی جھیلیں آبشاریں اور ندی نالے اور بلند و بالا برف پوش چوٹیاں عزیز ھیں تم دونوں صاحبان غاصب و باطل کچھ بھی کر لو۔ جبر بھی ظلم بھی گولی بھی بارود بھی چلا لو اب آذادی وطن جموں کشمیر کی چنگاری ایک توانا مشعل بن کہ ابھرے گی جو ایک نئی سحر کا آغاز بنے گی۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More