شبِ سیاه کے مسافر؛ تحریر:عبدالحکیم کشمیری
ہم آہستہ آہستہ نظریاتی اور فکری محاذ کی ساحری کے دائرے سے باہر نکل رہے ہیں بتائے گئے خوابوں کا بوجھ اٹھائے ہماری چوتھی نسل آج ریگ زار میں کھڑی ہے۔ان حالات میں دلائل اور زمینی حقائق سے عاری فکری لام بندی کے اماموں سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ وہ صبح جس کی نوید ہر ساعت زیست کا حصہ تھی اماؤس کی رات میں کیسے بدلی ؟وہ جگنو کہاں ہیں جن کا فسانہ سنایا گیا؟ وہ حسن ونظر وہ ساز و سخن وہ ماہ و نجوم کیوں کر خاکداں ہوئے ؟شہر آرزو دشت کیوں ٹھہرا؟
برف پوش ہمالہ کے دامن میں جشن ماتم کا ذمہ دار کون؟
کیا 73سال کے لہو رنگ سفر کا اختتام یہی تھا؟یہ نشیمن اپنوں کے ہاتھوں کیوں جلا؟کیا یہ اپنے ہمارے اپنے تھے بھی یا نہیں۔ان کا تعلق ہم سے تھا یا ہماری دھرتی سے؟صدیوں کی تاریخ رکھنے والی اس سرزمین کی بانٹ کی ڈکیتی میں شامل کردار معتبر ہیں یا مجرم؟ 5 اگست 2019 کے بعد کا منظر نامہ بتا رہا ہے کہ
ادھر تم ادھر ہم کی بنیاد پر مسئلہ جموں کشمیر کے حل کا اختتامی مرحلہ ہے۔۔۔۔۔۔فیصلہ سازوں نے اس سکرپٹ کی ایک ایک لائن لکھی ہوئی ہے۔ ایک سال میں خارجی سفارتی داخلی اور دفاعی محاذ پر جو پریکٹس کی گئی وہ اس اسکرپٹ کا حصہ تھی ۔شور شرابا دعوے۔۔مگر وزیراعظم آزاد جموں کشمیر کی طرف سے پیش کردہ قابلِ عمل تجاویز کو زیرغور لانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔۔۔
5اگست 2020،وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کسی بھی پیغام سے عاری تھا ،نجی محفل میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا دو ٹوک اظہار اور اس خطہ (آزادکشمیر)کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی کا عندیہ جس پر
رہبران ملک و ملت ہمارے سیاستدانوں کی خاموشی ”منزل اقتدار سے آگے خواہش کیا؟“کے مصداق ٹھہری ۔۔۔
محرومیوں کے مارے لشکر کی پیش قدمی کا جہاں منزل نامراد کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اس صحرا میں ہم اپنے پورے وجود کے ساتھ کہیں بھی نہیں نہ اس پار والے نہ اس پار والے۔۔۔ اس مسئلے میں ہماری حیثیت اس زمین پر رہنے والے جانوروں کی طرح رہی اور ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیارے ہم وطنو کشت وخون سے سجے تہترسال پر مشتمل اس کھیل کے اختتامی مراحل کا حتمی اسکرپٹ دیکھتے ہیں۔طاقت کے مراکز کے ایجنٹ بھرپور مال پانی کے عوض نئے پروں کے ساتھ اڑتے ہوئے حملہ آور ہوں گے۔الزامات کی بارش ہوگی۔حقائق کو جھوٹ سے ٹارگٹ کیا جائے گا۔تقسیم کشمیر کو مجبوری اور باکمال فیصلہ بتایا جائے گا۔مخالفت کرنے والا نشان عبرت بنے گا۔سٹیٹ سبجیکٹ کو ترقی کی راہ میں رکاؤٹ قرار دے کر ختم کیا جائے گا۔پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی کو ترقی اور خوشحالی کا معراج ثابت کیا جائے گایہ اس سکرپٹ کا ابلاغی محاذ ہوگا۔
سیاسی محاذ پر بھی دلالی میں اپنی مثال اپ ایجنٹوں کی ایک کھیپ تیار کی گئی ہےان باکمال لوگوں کی لاجواب خدمات سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے گا۔قانون ساز اسمبلی میں زیادہ تر ایسے لوگ پہنچائے جائیں گے جس طرح کے لوگ انگریزوں نے میسور کی سلطنت میں پہنچائے تھے۔ اسکرپٹ کے مطابق ایسے نئے قوانین نافذ ہوں گے جو گلگت بلتستان آرڈر 2018کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں یوں ا س خطے کے بنیادی انسانی حقوق اسلام آباد کی صوابدید پر ہوں گے۔اُس پار کی مزاحمت کا سوئچ اسلام آباد سے آف ہو جائے گا ۔۔۔۔۔ بیس کیمپ کے دعویداروں کو “آزادی آزادی” کھیل میں اداکاری کیلئے جو ذمہ داری دی گئی تھی اس کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔آشفتہ سروں کا ایک گروہ میدان عمل میں نکلے گا‘طاقت کے مراکز حرکت میں آئیں گے کچھ بھاگ جائیں گے کچھ مارے جائیں گے اور بڑے بڑے القاب کے حامل شب سیاه کے امام ہمیں نام نہاد جزبہ حریت سے لتھڑی ہوئی ماضی کی کہانیاں سنایا کریں گے۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More