سنجيدہ نوجوانوں سے اميديں وابستہ ہيں، تخليقی ادب وقت کی ضرورت ہے، امتیازفہیم
یہ ادب و سخنوری کا تخلیقی کام اس عہد کا سب سے بڑا فریضہ ہے
جہاں آرٹ و فن کو افسانہ و ناول و شاعری کو محض ایک عام سی یا غیر ضروری سے شئے بنا دیا گیا ھے یا پھر اس عظیم تخلیقی ہُنر کو فتوؤں کی آتش سے جلایا گیا ہے۔
کوشش تو رہے گی مگر مجھے آج ان نوجوانوں سے جو سنجیدہ ادب و سخن سے جڑے ھیں سے یہ توقع ھے کہ وہ کہنہ مشق لوگ مشق دیدہِ سخن وری غالب و جالب و فیض و حسرت موھانی کی آشاؤں و تمناؤں کی جستجو کریں گے اور اس فن سے مرجھائے رگ برگِ گل سنواریں گے ۔
منٹو نے کہا تھا مجھ پہ فحاشی کا الزام لگانے والے یہ کہتے ھیں کہ میں وحشاؤں پہ لکھتا ھوں تو کیا وہ بتا سکتے ھیں کہ ان کے پاس جانے والے کیا وہاں ثواب کمانے جاتے ھیں ؟
اس نے انہی حالات میں یہ لکھا تھا کہ میرے شہر کے رئیس زادوں و نیک ناموں کو اس شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا !
منٹو نے سچ کہا تھا کہ میں ان الزامات سے تنگ آکر لکھنا چھوڑ دوں مگر میں اپنے ضمیر کا کیا کروں ؟
کرشن چندر نے لکھا تھا کہ کہانی ہر سمت بکھری پڑی ہے مگر کہانی کو سمجھنا و سیکھنا و سیچنا پڑتا ہے، اس کی نوک پلک سنوارنی پڑھتی ھے
اسے پکانا پڑتا ہے۔ اور جب وہ ذھن میں پختہ ھو کر پک جاتی ھے
تو تب جا کر وہ میرے ھاتھوں کی انگلیوں میں اتر جاتی ھے
تب دنیا کی کوئی طاقت میرے ھاتوں کی جنبش کو روک نہیں سکتی۔
اردو نثر میں شاعری کی سی تاثیر میں کرشن چندر کا ثانی کوئی نہیں ہے اس لئے سیکھنے کے لئے سارا جہان پڑا ہے کوئی سیکھنے کا ذوق و شوق تو رکھے۔
Related News
سری لنکا میں سوشلسٹ صدر منتخب ساوتھ ایشیا میں نئی انقلابی لہر تحریر: پرویز فتح ۔ لیڈز، برطانیہ
Spread the loveسامراج تسلط سے تنگ اور آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبے ہوئےRead More
بنگلہ دیش کی صورتحال: بغاوت اور اس کے بعد۔۔۔ بدرالدین عمر
Spread the love(بدرالدین عمر بنگلہ دیش اور برصغیر کے ممتاز کمیونسٹ رہنما ہیں۔ وہ بنگلہRead More