طلباء گاہک نہیں ، تحریر: راشد باغی
موجودہ حکمران طلباء کو انسان سمجھنے کے بجاۓ جنس کی مانند سمجھ رہے ہیں جس طرح اِس ریاست میں دیگر پرتوں کی زندگی مشکلات میں گِری تاریخ کی بلند ترین سطح چُھو رہی ہے وہاں طلباء اِس ریاست میں تعلیم کی خاطر اِن حکمرانوں کے ہاں لوٹے جارہے ہیں ۔
جس ریاست میں تعلیم ایک دھندہ ہے طلباء گاہک کی صورت میں فیسیں بھرکربھی اپنے خوابوں کی تعبیر محنت کی منڈی میں محنت بیچنے کے مواقعے نہ ہونے اور محنت کے مول نہ ملنے پر طلباء سوائے یونیورسٹی میں دیگر اذیتوں اور سہانے خوابوں کے دنوں کو پچھتاؤے کے سوا کچھ نہیں دیکھ پا رہے۔
وہاں کرونا وائرس جیسی وبا نے اِن حکمرانوں کو نوجوان طلباء اور اُن کے والدین کا خون نچوڑنے کا مزید موقع فراہم کیا ہے۔
تاریخ اِس چیز کی عینی شائد ہے کرونا وائرس وبا پھیلنے سے پہلے بھی سرمایہ درانہ نظام کوئی انسان دوست سماج نہیں تھا یہ نظام اپنے نامیاتی بحران کے باعث اکثریتی انسان کی زندگی کو پہلے سے ہی اجیرن بنا چکا تھا لیکن کرونا وائرس وبا نے اِس نظام کے رکھوالوں اور اُن کے حواری حمایتوں کو کھلے آسمان کی طرح بے نقاب کیا ہے۔
کرونا وائرس کے شروع ہونے کے بعد ایک ایسی ریاست جہاں پچھتر فیصد سے زائد آبادی کے پاس دیگر بنیادی سہولتوں کی طرح انٹرنیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں اور اگر موجود ہے بھی تو متعلقہ انٹرنیٹ نیٹ ورک کے سنگنل ڈھونڈتے کہیں گھر کی چھت کہیں درختوں اور بعض جگہوں پر اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر سنگنل پکڑنے کی مشقت کی جاتی ہے لیکن وہاں اعلی احکام کی طرف سے نوجوانواں کی زندگی کے ساتھ یہ بدتمیزی کی گئی کہ آن لائن کلاسوں کا اجراء کیا جاۓ۔
تاکہ گھروں میں محصور نوجوانواں کو فیسوں کے نام پر لوٹا جا سکے ۔
جس ریاست میں حکمرانوں بیورو کریٹوں کی دیگر مراعات کے ساتھ لاکھوں روپے تنخواہ اور عوام کے دفاع کے نام پر اربوں روپیے سالانہ بجٹ ہو اور وہاں طلباء کی فیسیں معاف کرنے کے بجاۓ الٹا آن لائن کلاسز کے نام پر جب اکثریتی والدین اور جو طلباء پارٹ ٹائم روزگار کرتے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر رہے تھے ان پر سمسٹر کی فیس کسی بم گرانے کے مترداف ہے۔
لیکن طلباء کو ہراساں کیا جا رہا ہے
انھیں آن لائن کلاسز اور پیپرز کے نام پر جرمانے عائد کیے جارہے ہیں انھیں سمسٹر کی فیس نہ دینے پر یونیورسٹی میں نکانے اور دوبارہ داخلہ کروانے جیسے اقدام کیے جا رہے ہیں۔
طلباء اپنے ساتھ ہونے والی اِس نا انصافی پر کشمیر سمیت پورے پاکستان میں سراپا احتجاج ہیں لیکن کمال ہے کہ حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہے۔
تعلیم کا حق ہر نوجوان کو یہاں کی ریاست کا آئین دیتا ہے
لیکن وہ محض سفید کاغذ کی حثیت رکھتا ہی رکھتا ہے
طلباء نے اپنے اپنے جائز بنیادی حقوق کے لیے کرونا وائرس وبا شروع ہونے سے پہلے ہی گزشتہ سال نومبر میں تقربیاً چار دہائیوں کے جبر کے بعد پورے پاکستان سمیت کشمیر طلباء یکجہتی مارچ تمام بڑے شہروں میں احتجاج ریکارڈر کروایا تھا اور طلباء نے اِن حکمرانوں کو طلباء یونین پر لگی پابندی کو فوراً ختم کروا کر طلباء یونین الیکشن کا عندیہ دیا تھا اور اُس طلباء مارچ میں واشگاف الفاظ میں یہ نعرے بلند کیے تھے طلباء کوئی گاہگ نہیں طلباء مسقبل ہیں طبقاتی تعلیم نا منظور تعلیم کا کاروبار بند کرو وغیرہ
جس یکجہتی مارچ کے بعد طلباء کو جہاں ان حکمرانوں نے طلباء کی طاقت کو محسوس کرتے طلباء کو مین سٹریم میڈیا پر جگہ دی اور جلد طلباء کے مسائل حل کرنے کی بات کرنے کے ساتھ طلباء یونین کے الیکشن کا وعدے بھی ہونے لگے لیکن وہاں ان حکمرانوں نے شعوری بدمعاشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مین سٹریم میڈیا پر دائیں اور بائیں بازوؤں کی طلباء کی سیاست کی بات چھیڑ کر ریاستی ایماء پر پلنے والی طلباء تنظیم جمعیت جسں پر اِن حکمرانوں کی طرف سے کبھی بھی کوئی پابندی نہیں لگی بلکہ جمعیت جیسی طلباء تنظیم کا قیام ہی ترقی پسند طلباء تنظیموں کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا تھا اور ایک بار پھر حکمرانوں نے گلی سڑی بدبودار سیاست کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور کوشش آج ایک طرف طلباء پورے پاکستان سمیت کشمیر کرونا وائرس وبا کے ہوتے ہوۓ بھی جہاں ریاست طلباء پر ظلم کے پہاڑ توڑنے سے باز نہیں آ رہی تو طلباء ایکشن کمیٹی کے تحت جہاں مختلف ترقی پسند طلباء تنظمیں مخلتف یونیورسٹیوں میں سراپا احتجاج ہیں وہاں جمعیت جیسی غنڈا گرد تنظیمیں ضیائی دور کی متلاشی اپنے تئیں ایسے گرو بناے کی تگ دو میں ہیں کہ ان ترقی پسندوں کے کے راستے میں کیسے حائل ہوا جاۓ۔
ضیاء الحق جیسے انسان دشمن ڈکٹیٹر نے جہاں پورے سماج کو فردسودگی کی طرف دھیکنے کے لیے پاکستان کی ہر پرت میں مایوسی اور رجعت کے بیچ بوئے تھے وہاں طلباء تنظیموں پر پابندی لگا کر جعمیت جیسی تنظیم کا قیام عمل میں لاتے اِس ملک کے مستقبل کو تباہ برباد کرنے کا ٹھیکہ اپنے سر لیا تھا اور طلباء آج انہی پالیسوں کے باعث طلباء نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں گاہگ بننے کے ساتھ بیگانگی کا شکار ہو رہے ہیں۔
نوجوانواں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ صرف اِس ملک کے ڈکٹیروں نے کیا بلکہ اِن ڈکٹیروں کے ساتھ یہاں کی سیاسی پارٹیوں اور یونیورسٹی کالج کی انتظامیہ بھی برابر ملوث رہی ہے اور آج بھی یہ ادارے طلباء کے مسائل اور مستقبل میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں رکھتے آنے والے عرصے میں موجودہ حکمران طلباء پر مزید جبر اور تشدد کی طرف بھی جائیں گے کیونکہ یہ جانتے ہیں اگر طلباء اپنے حقوق کے لیے ابھی اگر انگڑائی لے رہے ہیں تو کل مکمل جاگ جائیں گے اور اگر طلباء بیدار ہوۓ تو سارے سماج کو بیدار کرنے کے باعث بنے گے اور جب سماج اپنے حقوق کے لیے بیدار ہوا تو ہماری شاہ خرچیوں اور دولت لوٹنے کی واردات کو نہ صرف ٹھیس پہنچے گی بلکہ انہیں دولت چھِن جانے کا خطرہ ہے ۔
لیکن یہ حکمران شائد اِس بات سے بے خبر ہیں نوجوانواں اور محنت کشوں کو کچھ وقت کے لیے دبایا اور تشدد تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ہمیشہ ایسا نہیں ہو سکتا کوئی بھی تحریک جو مسائل کے گرد اٹھتی ہے وقتی طور پر ماند اور زائل ہو سکتی ہے لیکن جب دوباره وہی مطالبہ لے کر اٹھتی ہے تو پہلے سے زیادہ جاندار اور نڈر قیادت کو بھی تراش لیتی ہے طلباء نوجوان یہاں کا مستقبل ہیں اور وہ مستقبل طلباء نوجوان کی یکہجتی ہی ممکن ہے سے ان حکمرانوں سے جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جلد یا بدیر یہ ظلم اور جبر کے بادل چھٹیں گے اور ایک انسان دوست سماج قائم ہو گا جہاں تعلیم سب کا حق ہو گا۔
Related News
میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں ؟ (تشدد و عدم تشدد ) تحریر مہر جان
Spread the love“مسلح جدوجہد دشمن کو زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے” (بابا مری) کبھی کبھی ایساRead More
عملی اور نظریاتی رجحان انسانی ارتقاء میں کتنا کارگر – کوہ زاد
Spread the loveانسان کا نظریاتی ہونا ایک بہت ہی عمدہ اور اعلی اور بہت ہیRead More