Main Menu

سندھ کیا ہے؟۔۔۔ شاعر: اعجاز منگی

Spread the love


اگر یہ سوال مرزا غالب کی زبان میں
عبدالواحد آریسر سے پوچھا جاتاکہ
”سندھ کیا ہے؟“
تو اس کے کارونجھری چہرے پر
ایک اداس مسکراہٹ بکھر جاتی
اور وہ سوال کرنے والے صحافی کو
جواب دینے کی ابتدا اس سوال سے کرتے
”آپ نے کبھی عشق کیا ہے؟
کیا ہوگا۔ ضرور کیا ہوگا۔
وہ انسان ہی نہیں جس نے عشق نہ کیا ہو۔
اور آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ
جس شخص کے ساتھ عشق کیا جاتا ہے
وہ محض ہڈی اور گوشت کا پتلا نہیں ہوتا
محبوب تصویر کم؛تصور زیادہ ہوتا ہے
سندھ ہمارے لیے
ایک لاکھ چالیس ہزار اسکوائر کلومیٹرکا رقبہ نہیں ہے
سندھ ہمارے لیے سات کروڑ افراد کی آدمشماری نہیں
سندھ ہمارے لیے ایک دریا بھی ہے
وہ دریا جو ہماری دھرتی کے ماتھے پر
سدا سہاگن مانگ بن کر بہتا ہے۔
سندھ ہمارے لیے تھر کی وہ ریت ہے
جس کا ہر دانہ مور کی آنکھ سے بہنے والا
وہ موتی ہے جو بیش قیمت ہے۔
سندھ ہمارے لیے ایک سیاسی بینر نہیں ہے
سندھ ہمارے لیے ماں کا وہ آنچل ہے
جس میں ہمارے سارے آنسو جذب ہوجاتے ہیں
سندھ ہمارے لیے معصوم سی بیٹی کی مسکراہٹ ہے
سندھ ہمارے لیے والد کا وجیہہ چہرہ ہے
سندھ ہمارے لیے موسم گرما میں
املتاس کی شاخ پر بیٹھی کویل کی کوک ہے۔
سندھ ہمارے لیے کلکیولیٹر نہیں ہے
سندھ ہمارے لیے جوگی کا ”ڈھارا“ ہے
سندھ ہمارے لیے تدبیر نہیں
سندھ ہمارے لیے تقدیر ہے
سندھ ہمارے لیے سیاست نہیں
سندھ ہمارے لیے عبادت ہے!
تم خسرو اور میر سے لیکر
غالب؛ فیض و فراز تک
سارے اشعار لاؤ
سندھ ان سب سے
سندر سخن ہے۔
اگر تم معشوق نہیں۔
عاشق بھی ہو
تو سمجھ جاؤ
سندھ ہمارے لیے وصال نہیں
سندھ ہمارے لیے فراق ہے
اور ہم سندھ کے سیاستدان نہیں
ہم سندھ کے فقیر ہیں۔۔۔۔۔!!






Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *