Chief Editor
رياست جموں کشمير کےعظیم رہنما بیرسٹر قربان علی ،تحرير: صنم افسر
ہر انسان زندہ رہنے کے لیے مصائب و مشکلات کا سامنا کرتا ہے،جینے کی آس میں طویل اور گھٹن جدوجہد کرتا ہے۔مگر بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے تکلیفیں اور دکھ برداشت کرتے ہیں تاکہ وہ آرام اور سکھ کی زندگی بسر رکر سکیں۔تاریخ میں ایسے بے شمار نام ہمیں ملیں گے جنہوں نے اپنی منفرد سوچ اور کردار سے اپنے ارد گرد کا ماحول بدل دیا اور لوگوں کو زندگی ایک نئے انداز سے گزارنے کا راستہ مہیا کیا۔بیرسٹر قربانRead More
زمینی تنازعات اور پرتشدد واقعات ،ذمہ دار کون ؟ تحریر :شمیم خان
اس کرہ ارض پر دیگر تنازعات کی طرح زمین کا تنازعہ بھی انسانوں میں نہ صرف تفریق کا باعث بنا بلکہ اسکے باعث بے پناہ کشت و خون بھی ہوا یہ تنازعہ سلطنتوں سے ملکوں تک اور پھر شہروں اور گاوں تک پھیلا ہوا سلطنتوں اور ملکوں کے تنازعے تو بین الاقومی حثیت رکھتے انکی ایک الگ اہمیت ہے لیکن گاوں کی سطح پر اراضی کے تنازعوں نے پورے معاشرے پر گہرا اثر ڈالا ہے آج اکیسویں صدی میں انسان چاند پر قدم رکھنے کے بعد ستاروں پر کمندیں ڈالنےRead More
مُرشد مروا نہ دينا، تحرير: محمد حنيف
مانيٹرنگ ڈيسک ضیاالحق نے جنرل چشتی سے کہا ’مرشد مروا نہ دینا‘ ’ایک بات پراتفاق ہے کہ جنرل ضیا اور ان کا گیارہ سالہ دور حکومتِ پاکستان کے لیے تباہ کُن ثابت ہوا۔ جو زہریلے بیج اس دور میں بوئے گئے تھے وہ تن آور درخت بن چکے ہیں‘ انیس سو ستتر میں چار اور پانچ جولائی کی درمیانی رات تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت الٹنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ آپریشن کا نام طے ہوچکا تھا ، آپریشن فیئر پلے۔ آپریشن شروع ہونے سے چند لمحے پہلے فوج کےRead More
پانچ جولائی1977 ، تيزاب زدہ جمہوريت کا غير جماعتی نظام ۔ تحریر: مظہر عباس
’’میرے عزیز ہم وطنو، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی ہے۔ پورے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے 1973کا آئین معطل کردیاگیا ہے‘‘۔ پانچ جولائی1977کی شام سرکاری میڈیا پر خطاب کرتے ہوئے جنرل ضیاءالحق نے قوم سے وعدہ کیا کہ90دن میں انتخابات کروا کر اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ وہ11سال برسر اقتدار رہے جس کے دوران پورا معاشرہ ہیروئن اور گن کلچر کی نذر ہوگیا، قوم برادری، لسانی اور فرقہ واریت میں تقسیم ہوگئی۔ جمہوریت کو تیزاب میں ڈال کر ایک غیر جماعتی نظام کیRead More
فسطائيت ، فرقہ واريت ، دہشتگردی اور ترقی پسند پارٹیاں، تحرير انور زيب
آج جو ہم فرقہ واریت .فسطائیت ، دہشت گردی ، مذھبی انتہا پسندی اظہار راۓ پر پابندی اور عسکری بالا دستی کا فصل کاٹ رہے ہیں اس کا بیج 1970 کی دہایء کے اوائل میں کسی اور کے ہاتھوں نہیں بلکہ خود ہم ترقی پسند سیکولر جمہوری پارٹیوں نے ہی بویا تھا۔ ابھی نیا نیا سقوط ڈھاکہ ہوا تھا فوج نے بہ امر مجبوری نہ چاہتے ہوےء بھی اقتدار سیویلین کے حوالے کیا تھا۔ سہہ فریقی مزاکرات کے تحت 1973 کے آئین پر اتفاق ہو چکا تھا .باو جود شکستRead More
عید کا تحفہ کیا چاہیے؟ تحرير : فرخ سہیل گوئندی
آج سے 39 سال قبل 1979 جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپریل 1979ء میں پھانسی گھاٹ پر قتل کیا، تو سارے ملک میں ایسا سکوت تھا جیسے صحرا میں آندھی کے بعد مکمل خاموشی۔۔۔ ایسے میں ملک بھر میں چند سر پھرے ہی تھے جنہوں نے اس جبر کے خلاف علمِ مزاحمت سر بلند کیا، اکثریت پس زنداں تھی۔ مزاحمت کی سرگوشیاں تھیں، زیر زمین، گھروں کے اندر چند لوگوں کی تقریب برپا کئیۓ جانے سے زیادہ کچھ ممکن نہیں تھا، یعنی مزاحمت کی روائیت برقرار رکھنےRead More
پانچ جولائی یوم سیاہ ، ضیائیت کو مات دو۔ تحرير: ببرک خان
امریکی سامراج کی ایما پر وحشی آمر جنرل ضیاالحق نے پانچ جولائی 1977 کو پی پی پی کی منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر قاہد عوام شہید زلفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان اور جموں کشمیرکے جہموری پسند ، ترقی پسند عوام اس دن کو یوم سیاہ کے طورپر بناتے ہیں۔ وحشت، دہشت ،قرقہ واریت ,انتہا پسندی ،لسانیت،منشیات، برادری ازم اور نفرت کے تمام بیج ضیاء کی وحشی آمریت کےدور میں ہی بوئے گئے جس کے نتائج یہاں کا سماج آج بھی بھگت رہا ہے۔ 4Read More
جمہوری آزادیاں اور سوشلزم۔ تحرير: لیاقت علی
کیا جمہوری آزادیوں کے ساتھ سوشلزم( ریاست کے طورپر) قائم رہ سکتا ہے؟۔اب تک کا تجربہ ہے کہ نہیں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ جتنی سوشلسٹ ریاستیں قائم ہوئیں ان کے ہاں نہ صرف جمہوری آزادیاں ناپید تھیں بلکہ ان کا مطالبہ کرنے والوں کو ریاستی تشدد اور قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔آج بھی سوشلسٹ چین میں آزاد پریس اور وہ جمہوری آزادیاں جوہم پاکستان جیسے ملک جہاں فوج کار مختار ہے میں انجوائے کررہے ہیں وہاں مفقود ہیں۔ریاستی جبراورآمریت کے مخالفین کو منحرف کہہ کرRead More
سندھی علیحدگی پسند تنظیمیں اور دہشت گردی۔ تحرير: حسن مجتبیٰ
يہ جولائی 1972 کی بات ہے جب سندھ میں سندھی مہاجر لسانی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ دادو شہر کے ایک محلے کے گھر میں دھماکہ ہوا تھا جس میں اس وقت کا ایک نوجوان علی جان شدید زخمی ہوا تھا۔ علی جان کے دونوں ہاتھ بم دھماکے میں اڑ گئے تھے۔ ہوش میں آنے پر گرفتار علی جان اور اس کے ساتھیوں نے پولیس کو یہ بیان دیا تھا کہ وہ اپنی اوطاق میں بیٹھے تھے کہ دوازے پہ دستک ہوئی اور جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا تو کوئیRead More
ہم اپنے خواب کیوں بیچیں ؟ 5جولائی مردہ باد!!
بقول فراز: “ہم اپنے خواب کیوں بیچیں!” فقیرانہ روش رکھتے تھے لیکن اس قدر نادار بھی کب تھے کہ اپنے خواب بیچیں ہم اپنے زخم آنکھوں میں لئے پھرتے تھے لیکن روکشِ بازار کب تھے ہمارے ہاتھ خالی تھے مگر ایسا نہیں پھر بھی کہ ہم اپنی دریدہ دامنی الفاظ کے جگنو لئے گلیوں میں آوازہ لگاتے “خواب لے لو خواب” لوگو اتنے کم پندار ہم کب تھے ہم اپنے خواب کیوں بیچیں کہ جن کو دیکھنے کی آرزو میں ہم نے آنکھیں تک گنوا دی تھیں کہ جن کیRead More